بابِ لُد کا ذکر حدیث میں دجال کے مقام قتل کے طور پر ہوا ہے۔”حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے دیکھا تو میں رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیوں رو رہی ہو۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر اس طرح فرمایا کہ اس غم میں مجھ کو بے ساختہ رونا آگیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر وہ نکلا اور میں اس وقت موجود ہوا تو تمھاری طرف سے میں اس سے نمٹ لوں گا اور اگر وہ میرے بعد نکلا تو پھر یہ بات یاد رکھنا کہ تمھارا پرورد گار کانا نہیں ہے (اور وہ کانا ہو گا)، جب وہ نکلے گا تو اس کے ساتھی اصفہان کے یہود ہوںگے۔ یہاں تک کہ جب مدینہ آئے گا تو وہاں ایک طرف آ کر اترے گا اس وقت مدینہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازہ پر دو دو فرشتے نگران ہوں گے ( جو اس کے اندر آنے سے مانع ہوںگے ) مدینہ میں جو بداعمال آباد ہیں وہ نکل کر خود اس کے پاس چلے جائیں گے اس کے بعد وہ فلسطین میں بابِ لُد پر آئے گا ۔عیسیٰ علیہ السلام نزول فرما چکے ہوں گے اوریہاں وہ اسکو قتل کریں گے پھر عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک ایک منصف امام کی حیثیت سے زمین پر زندہ رہیں گے۔”( مسند احمد ) آج سے 1400 سال قبل اس حدیث کے بیان کے وقت “لُد” کے مقام پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں دجال کے اس مقام پر قتل کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔ تاہم مسلمان کئی صدیوں تک بابِ لُد کی اہمیت جاننے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔تاریخی اعتبار سے لُد ایک قدیم شہر ہے۔ یہاں پر 5250 سال قبل مسیح پرانے ظروف بھی پائے گئے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں بھی یہاں آبادی موجود تھی۔
تاہم تاریخ میں اس کا سب سے پہلا ذکر 1500 قبل مسیح کی مصری تاریخ میں کیا گیا۔ تاریخ کے سفر کے دوران اس شہر پر کئی اقوام کا قبضہ رہا اور فاتحین نے اس کو کئی نام دئے۔ مختلف ادوار میں یہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ 636 ء میں حضرت خالد بن ولید نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو یہ شہر بھی فتح ہوا اور اس کا نام ال۔لُد رکھا گیا۔
لیکن صلیبی جنگوں کے دوران یہ شہر مسلمانوں سے چھن گیا۔ یہ شہر برطانوی راج کا بھی حصہ رہا اور اس دوران اس کا نام تبدیل کرکے لِڈا رکھ دیا گیا۔ تاہم جب 1948 ء میں اسرائیلیوں نے عربوں کا شکست دے کر اس شہر کو فتح کر لیا تو اس شہر کا نام ایک دفعہ پھر سے تبدیل کر دیا گیا اور اس کو اس کا پرانا یہودی نام لُد دے دیا گیا۔ موجودہ دور میں لُد، اسرائیل کے دارالحکومت
تل ابیب سے 15 کلومیٹر دور واقع شہر ہے۔ ء2007 کے اختتام پر یہاں کی آبادی کا اندازہ تقریباً 67،000 نفوس کا تھا، جس میں سے 80% یہودی مزہب سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ باقی ماندہ آبادی عربوں کی تھی جس میں سے اکثریت مسلمانوں کی، جبکہ کچھ عیسائی بھی شامل تھے۔لُد شہر کی موجودہ اہمیت یہاں موجود بین الاقوامی ہوائی اڈے کی وجہ سے ہے۔
یہ ہوائی اڈہ برطانوی راج کے دوران فوجی پروازوں کے لئےتعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم 1948 ء میں اسرائیلی حکومت کے زیر استعمال آنے کے بعد سے یہ کمرشل، پرائیویٹ اور فوجی تینوں طرح کی پروازوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ٹرین، بس یا کار کسی بھی زریعےسے اس ہوائی اڈے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس ایر پورٹ کے چار ٹرمینل ہیں جن میں سے تین استعمال میں ہیں
جبکہ چوتھا ٹرمینل 1999 ء میں تکمیل کے باوجود ابھی تک کھولا نہیں گیا ہے۔ اسرائیل فلسطین تنازعے کے پیش نظر یہاں سیکیورٹی کا بہت زیادہ انتظام کیا گیا ہے اور یہ دنیا کے محفوظ ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔لُد شہر کی موجودہ صورتحال پر ایک نظر ڈالنے کے بعد 1400 سال پہلے بیان کی گئی حدیث میں متذکر بابِ لُد کی اہمیت کی وجہ واضح ہوتی ہے یعنی یہاں موجود
بین الاقوامی ہوائی اڈہ۔ حدیث کی وضاحت کے تناظر میں ایک زاویہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لڑائی کے دوران دجال پسپا ہو کرکسی ہمدرد مغربی ملک کی طرف بھاگنے کی کوشش کرے اور اس کے لئے اسے ہوائی اڈے کا رخ کرے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام، جو کہ زمین پر فتنہ دجال کا خاتمہ کرنے کے لئے اتارے گئے ہونگے اس کو بھاگنے سے
پہلے ہی پکڑ لیں گے اور قتل کر دیں گے۔یوں دنیا سے دجال کا خاتمہ ہو جائے گا اور اسلام کا بول بالا ہوگا۔(استفادہ : وکی پیڈیا، دی اینڈ آف ٹائم بائے ڈاکٹر شاہد مسعود)