عمر بن عبدالعزیزؒ ایک بزرگ ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں حکومت بھی عطا فرمائی مگر انہوں نے اپنے آپ کو نیکی کے راستے پر رکھا، سادہ زندگی گزاری اور اپنے رب کو راضی کرنے میں لگے رہے، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے ایک دوست نے کہا کہ عمر تم نے اپنے بچوں کے ساتھ بہت برا کیا، پوچھا کیسے؟ انہوں نے کہا کہ تم سے پہلے جو حاکم تھے،
انہوں نے اپنی اولاد کے لیے اتنے خزانے چھوڑے، اتنی زمینیں چھوڑیں، اتنی جاگیریں دیں کہ آج ان کی اولاد عیش کی زندگی گزار رہی ہے، تمہارے گیارہ بیٹے ہیں اور تم نے اپنے بیٹوں کے لیے کچھ بھی جمع نہیں کیا تمہارے بعدتمہاری اولاد کا برا حشر ہوگا؟ یہ بات سن کر عمر بن عبدالعزیزؒ اٹھ کر بیٹھ گئے، فرمایا: میری بات سنو، اگر میں نے اپنی اولاد کی تربیت اچھی کی، ان کو نیکی سکھائی، نیکی کے راستے پر لگایا، تو اللہ کا وعدہ ہے وھو یتولی الصالحین، اللہ تعالیٰ نیکوں کا سرپرست ہے، میں اپنی اولاد کو اللہ کی سرپرستی میں دے کر جا رہا ہوں اور اگر یہ نیک نہیں بنے، بلکہ بدکار بنے تو ان کی بدکاری پر میں ان کا کچھ تعاون نہیں کرنا چاہتا۔ جب عمر بن عبدالعزیز فوت ہوگئے اور ان کے بعد جو بندہ حاکم اور بادشاہ بنا، اس نے سوچا کہ اچھے اور نیک بندے مل جائیں تاکہ مختلف علاقوں کے گورنر بناؤں، چنانچہ اس کو پورے علاقے میں عمر بن عبدالعزیزؒ کے بیٹوں سے زیادہ پڑھالکھا تربیت یافتہ نیک سیرت بندہ نہیں ملا، اس نے ایک بیٹے کو گورنر بنایا، پھر دوسرے کو، پھر تیسرے کو بنایا، ہر ایک گورنر بنے، راحت و سکون کی زندگی گزارنے لگے، جبکہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ پہلے والے حکام جنہوں نے اپنے بچوں کے لیے بڑی بڑی جاگیریں چھوڑی تھیں، ان کے اوپر ایسے حالات آئے کہ پورا خزانہ ختم ہو گیا اور میں نے ان کو جامع مسجد کے دروازے پر بھیک مانگتے دیکھا اور عین اس وقت عمر بن عبدالعزیزؓ کے گیارہ بیٹے صوبوں کے گورنر بنے ہوئے تھے۔