مدینہ منورہ میں نجار کے چند وفود آئے ہر طرف ہنگامہ اور شوربرپا ہونے لگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ آؤ چلو! ہم اس رات چوری وغیرہ سے لوگوں کو بچانے کے لئے پہرہ داری کریں۔ چنانچہ وہ دونوں رات بھر پہرہ داری کرتے رہے اور جس قدر اللہ نے ان کے لئے لکھا تھا نمازیں پڑھتے رہے۔
اسی دوران حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کسی بچے کے رونے کی آواز سنی تو آواز کی طرف متوجہ ہوئے اور جا کر اس کی ماں سے کہا، جو اس کو چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی، خدا کا خوف کرو، اپنے بچے کاخیال کرو، یہ کہہ کر اپنی جگہ واپس تشریف لے آئے، پھر تھوڑی دیر کے بعدبچہ کے رونے کی آواز آئی تو دوبارہ اس کی ماں کے پاس گئے اور اسی طرح اس کو سمجھا کر واپس آ گئے، رات کے آخری حصہ میں اس بچے کے رونے کی پھر آواز آئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بچہ کی ماں کے پاس آئے اور سختی سے کہا کہ تیرا ناس ہو! لگتا ہے کہ تم بری ماں ہو، کیا بات ہے کہ تمہارا یہ بچہ ساری رات بے چین رہا؟ ماں نے پریشانی اور بھوک کے عالم میں جواب دیا کہ اے اللہ کے بندے! تو نے مجھے آج کی رات پریشان کیا، میں اصل میں اس بچہ کو دودھ چھڑانے کی مشق کرا رہی ہوں مگر یہ انکار کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ ایسا کیوں کر رہی ہو؟ بچہ کی ماں نے کہا کہ اس لئے کہ عمر رضی اللہ عنہ اسی بچے کا وظیفہ مقرر کرتے ہیں جس کا دودھ چھڑا لیا گیا ہو(یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ خوف سے تھرانے لگے اور اس سے پوچھا کہ اس بچہ کی کتنی عمر ہے؟ اس کی ماں نے بتایا کہ اتنے مہینے ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرا ناس ہو! تو اس کا دودھ جلدی نہ چھڑا۔ یہ کہہ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ واپس آ گئے۔
فجر کی نماز پڑھائی تو لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی قرأت کے دوران آہ و بکار کا غلبہ محسوس کیا۔ جب سلام پھیرا تو فرمایا کہ عمر کیلئے تنگ ہو! مسلمانوں کے کتنے بچے مر گئے؟ اس کے بعد حالت اسلام میں پیدا ہونے والے ہر بچہ کے لئے وظیفہ کا حکم جاری فرمایا اور تمام علاقوں میں یہ فرمان نام لکھ کر بھیج دیا۔