مدینہ منورہ سے دور کسی جگہ پر ایک چھوٹی سے جھونپڑی تھی جب وہاں سے چراغ کی دھیمی دھیمی سی روشنی محسوس ہوئی تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس جھونپڑی کے قریب گئے تو دیکھا کہ ایک بڑھیا سیاہ رنگ کے کپڑے پر بیٹھی ہے اور اندھیرا چھا رہا ہے، اس چراغ کے باوجود اندھیرا بدستور قائم ہے اور وہ غمگین حالت میں یہ شعر پڑھ رہی ہے۔
’’محمدﷺ پر نیک لوگوں کا درود ہو، نیک برگزیدہ لوگ تجھ پر درود بھیجیں، بیشک تو نگران اور وقتِ سحر رونے والا تھا، کاش! مجھے معلوم ہوتا اور خدائی فیصلے مقرر ہیں، کیا تم مجھے اور میرے حبیب کو اس گھر میں جمع کر دو گے‘‘۔بڑھیا کی یہ باتیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل پر اثرانداز ہوئیں اور ان کو گزرا ہوا زمانہ یاد آگیا، پھر زار و قطار رونے لگے اور اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بڑھیا نے پوچھا کون ہے؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا (اس وقت آہ و بکاء کا غلبہ تھا) میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہوں۔ کہنے لگیں ’’مجھے عمر رضی اللہ عنہ سے کیا کام! اور اس وقت عمر رضی اللہ عنہ کیا لینے آیا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دروازہ کھولو! اللہ تم پر رحم کرے، تم گھبراؤ نہیں، چنانچہ بڑھیا نے دروازہ کھولا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اندر تشریف لے گئے، پھر فرمایا کہ ابھی جو الفاظ تم کہہ رہی تھیں وہ دوبارہ دہراؤ، جب بڑھیا وہ الفاظ کہہ کر فارغ ہوئی تو فرمایا کہ میری درخواست ہے کہ مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کر لو، چنانچہ اس بڑھیا نے کہا ’’وعمر فاغفرلہ یا غفار‘‘ یعنی اے غفار! ہمارے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کی بھی مغفرت فرما۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خوش ہو گئے اور واپس چلے گئے۔