ایک راہب نے اپنے عبادت خانے میں ساٹھ سال عبادت کی، ایک دن اس نے اپنی کھڑکی سے باہر پانی کی جگہ میں جھانکا اور کہنے لگا: اگر میں نیچے اتر کر یہاں سے پانی پی لوں تو میں کسی کو دیکھوں گا بھی نہیں اور پانی بھی پی لوں گا، وضو بھی کر لوں گا، پھر میں واپس اپنی جگہ پر آ جاؤں گا، چنانچہ وہ (عبادت خانے سے) نیچے اترا، ایک عورت آ گئی اور اس عورت کے جسم سے کپڑا ہٹ گیا،
اس نے اس عورت کے حسن و جمال کو دیکھا تو وہ اپنے آپ کو روک نہ سکا (اپنے آپ کو کنٹرول نہ کر سکا) اور اس نے عورت سے زنا کا ارتکاب کر لیا، اس کے بعد وہ ایک جگہ پر غسل کے لیے داخل ہوا اور اسے موت آ گئی، وہ اس حال میں تھا کہ اس کے آخری سانس تھے اس کے پاس ایک سائل آ گیا (ایک مانگنے والا فقیر آ گیا)، جب اس (فقیر) نے اس سے سوال کیا تو راہب نے اس کو اشارہ کیا کہ یہ میرا تھیلا ہے اور اس میں روٹی کا ٹکڑا ہے، اس کپڑے میں روٹی کا ٹکڑا تھا، مسکین نے اس کپڑے میں سے روٹی کا ٹکڑا لیا اور راہب مر گیا، اس راہب کی ساٹھ سال کی عبادت کا وزن کیا گیا تو زنا کا گناہ سب سے زیادہ بھاری نکلا۔۔۔ اللہ اکبر کبیرا۔۔۔!!یہ بہت توجہ طلب بات ہے، ساٹھ سال کی عبادت ایک طرف اور زنا کا گناہ ایک طرف، ایک زنا کا گناہ ساٹھ سال کی عبادت پر بھاری ہو گیا، پھر روٹی کا ایک ٹکڑا رہ گیا تھا جو اس نے سائل کو دیا تھا، چنانچہ پھر اس ٹکڑے کو لایا گیا اور اس کی نیکیوں کے پلڑے میں ڈالا گیا، پھر نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگیا اور اس بندے کو بخش دیا گیا۔ (اس آخری جملے پر حضرت اقدس دامت دامت برکاتہم العالیہ پر رقت طاری ہو گئی اور آپ آبدیدہ ہو گئے)ذرا سوچئے کہ اخلاص کے ساتھ اگر چھوٹا سا عمل بھی کیا جاتا ہے تو میزان میں کتنا وزنی ہوتا ہے کہ وہ گناہوں کے پلڑے کو ہلکا کر دیتا ہے۔