جمعرات‬‮ ، 06 فروری‬‮ 2025 

سی گرین شرٹ

datetime 11  فروری‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

دو سال پہلے کی بات ہے ‘ میں شرٹ خریدنے کے لیے ریڈی میڈ کپڑوں کی ایک دوکان میں داخل ہوا جہاں چمکتی روشنیوں میں ایک سے ایک شرٹس جگمگا رہی تھیں۔ہر شرٹ قیمتی ہینگر میں لٹکی ہوئی تھی اور کچھ اس انداز سے اپنا جلوہ دکھا رہی تھی کہ دیکھتے ہی اپنی طرف کھینچنے لگتی۔کافی ساری شرٹس دیکھنے کے بعد مجھے ’’سی گرین‘‘ کلر کی ایک شرٹ بہت پسند آئی‘ اس کی قیمت میرے بجٹ سے زیادہ تھی لیکن میں نے جیسے تیسے کرکے اِسے خرید ہی لیا۔

اِس شرٹ کا رنگ روپ بہت شاندار تھا‘ کالر کا ’’بکرم‘‘ نہایت اعلیٰ کوالٹی کا تھا‘ کپڑا بھی بہت عمدہ تھا اور سب سے بڑی بات کہ سائز میں بالکل ٹھیک تھی۔پہلی دفعہ میں نے یہ شرٹ پہنی تو خاص طور پر خیال رکھا کہ اس پر کوئی داغ نہ لگنے پائے‘ اْس روز میں نے سگریٹ بھی نہیں پیا کہ کہیں راکھ کا کوئی ذرہ میری شرٹ کو خراب نہ کردے۔میں یہ شرٹ پہن کردوستوں میں گیا تو سب نے بہت تعریف کیمجھے بھی بڑا فخر محسوس ہوا کہ میری چوائس کتنی اچھی ہے۔یہ شرٹ مجھے اپنی ساری شرٹس سے عزیز تھی‘کہیں جانے کے لیے جب بھی شرٹ کی چوائس کا مسئلہ درپیش ہوتا تو میری نظر اِسی ’’سی گرین کلر‘‘ کی شرٹ پر پڑتی۔کئی دفعہ تو دوستوں نے مذاق بھی اڑایا کہ لگتا ہے تمہارے پاس ایک ہی شرٹ ہے۔ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ مجھے اِس شرٹ سے عشق ہوچکا ہے۔میں نے اس شرٹ کو بلیک اور گرے کلر کی پینٹ کے ساتھ بہت دفعہ پہنا‘یہ جینز پر بھی سوٹ کرجاتی تھی لہذا ہر بار میری توجہ کا مرکز رہی۔چھ سات ماہ تک میں اِس شرٹ کے جنون میں مبتلا رہا‘ پھر رفتہ رفتہ کچھ اور شرٹس خرید لیں اور’’سی گرین کلر‘‘ کی یہ شرٹ ہینگر میں لٹکی لٹکی پرانی شرٹس کے ہجوم کی طرف دھیرے دھیرے کھسکنے لگی۔وقت گذرتا رہا اور ایک سال بعد مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے کبھی سی گرین کلر کی کوئی شرٹ بھی پہنی تھی۔ اسی دوران میری کپڑوں کی الماری کا دروازہ خراب ہوگیا

اورمیں اسے جتنا بند کرنے کی کوشش کرتا وہ ایک جھٹکے میں دوبارہ کھل جاتا۔ میں نے سوچا کارپینٹر کو بلوانا چاہیے۔۔۔اور تب بیگم نے مجھے بتایاکہ دروازہ بالکل ٹھیک ہے ‘ اندر کپڑوں کا ڈھیر اتنا بڑھ گیا ہے کہ دروازہ بند نہیں ہورہا۔ بات میری سمجھ میں آگئی تھی لہذا گذارش کی کہ پرانے سارے کپڑے ڈرائیور کو دے دیے جائیں۔میری بات پر عمل ہوا اوراگلے ہی دن الماری کا دروازہ بڑے آرام سے بند ہونا شروع ہوگیا۔اب یہ شرٹ میرے ڈرائیور نے پہننا شروع کر دی تھی‘ اسے بھی شائد یہ کلر پسند تھا لہذا ہر تیسرے دن یہی شرٹ پہن کر آجاتا۔ایک سال تک اس نے یہ شرٹ تواتر سے پہنی ‘ پھر کوئی اور شرٹ پہننے لگا۔میں نے بھی اس تبدیلی پر غور نہیں کیا اورمعاملات یونہی چلتے رہے۔ایک دن ڈرائیور کا ایک کزن اس کے ساتھ آیا تو اس کے بدن پر یہی شرٹ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ شرٹ اب تیسرے ہاتھ چلی گئی ہے‘لیکن اب اس شرٹ کا کالر بہت گندہ ہوچکا تھا‘ سامنے کے تین بٹن بھی ٹوٹے ہوئے تھے

جن پر کسی اور کلر کے بٹن ٹانک دیے گئے تھے‘ کف کی حالت دیکھ کر بھی لگ رہا تھا کہ کافی دنوں سے دھلائی کا منہ نہیں دیکھا۔ایک دن میں نے ڈرائیور سے فرمائش کی کہ اب کی بار اپنے گاؤں جاؤ تومیرے لیے کچھ ’’گنے‘‘ ضرور لے کر آنا۔اس نے حامی بھر لی اور دو تین ہفتوں بعدہی آٹھ دس گنے لیے حاضر ہوگیا۔یہ گنے اْس نے ’’سی گرین کلر‘‘ کی شرٹ سے باندھے ہوئے تھے۔ شرٹ دوبارہ میرے گھر آگئی تھی۔پہننے کے قابل تو یہ رہی نہیں تھی لہذا طے پایا کہ اسے گاڑی صاف کرنے والے کپڑے کے طور پر استعمال میں لایا جائے۔ تین چارماہ تک یہ شرٹ اپنی چمک کھو کر میری گاڑی کو چمکاتی رہی اور پھر ایک دن کام کرنے والی ماسی نے اسے وائپر کے آگے باندھ کر ’’پوچا‘‘ بنا لیا۔یہ شرٹ فینائل میں ڈبو کر فرش پر پھیری جاتی اوربعد میں لانڈری کے ایک کونے میں بے حیثیت چیز کی طرح پڑی رہتی۔

بچوں کو حکم تھا کہ نہ اس ’’پوچے‘‘ کو ہاتھ لگانا ہے نہ اس کے قریب سے گذرنا ہے کیونکہ اس میں بہت سے جراثیم ہوتے ہیں۔وہ شرٹ جس پر میں راکھ کا ذرہ بھی برداشت نہیں کرتا تھا اب انتہائی مہلک چیز کا روپ دھار چکی تھی۔ اِس کا کلر کالا سیاہ ہوچکا تھااور دیکھتے ہی گھن آتی تھی۔ماسی اسے فرش پر پھیرتی اور پھر اچھی طرح سے دھو کر ایک طرف سوکھنے کے لیے رکھ دیتی۔کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ گنداترین کپڑا کبھی ایک شرٹ تھا اور شہر کی سب سے مہنگی دوکان میں پورے کروفر کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔چار دن پہلے ’’سی گرین کلر‘‘ کی شرٹ یہ کہہ کر کچرے کے کنٹینر میں پھینک دی گئی کہ اب یہ ’’پوچے‘‘ کے قابل بھی نہیں رہی۔

آج میں آفس جانے کے لیے نکلا تو راستے میں دیکھا کہ کچرا اٹھانے والے دو لڑکے کچرے کے کنٹینر میں سے مڑے تڑے کاغذ‘ گندے شاپنگ بیگ اور پلاسٹک کی خالی بوتلیں اپنے بڑے سے تھیلے میں ڈال رہے ہیں‘ دونوں باری باری شرٹ کو اٹھا کر دیکھتے ہیں اور پھر منہ بنا کر واپس پھینک دیتے ہیں۔۔۔’’سی گرین کلر‘‘ کی شرٹ اْن کے کسی معیار پر پوری نہیں اتر رہی۔زندگی میں بہت سی چیزیں ہم بڑے شوق سے خریدتے ہیں‘ ہر چیز کا پہلا لمس‘ پہلی نظر‘ پہلا حصول بہت پرجوش ہوتاہے‘ہمیں لگتا ہے کہ بس یہی چیز وہ چیز تھی جس کی ہمیں تلاش تھی‘ شروع شروع میں ہم اسے ’’سی گرین شرٹ‘‘ کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں‘ کوئی داغ نہیں لگنے دیتے‘ ہر جگہ پہلی ترجیح دیتے ہیں۔۔

لیکن جوں جوں وقت گذرتاہے ہماری ترجیحات بھی بدلنے لگتی ہیں اور ایک دن وہ بھی آتاہے جب ہماری پسند سب کے لیے ناپسند ہوجاتی ہے۔جوانی سے بڑھاپے کا سفر بھی سی گرین شرٹ کی طرح ہوتاہے‘ جب تک ہماری روشنیاں اور توانائیاں برقرار رہتی ہیں تب تک دنیا ہمیں نوازتی رہتی ہے ‘لیکن ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہوتے ہوتے جب ہم ’’پوچا‘‘بن جاتے ہیں تو گھر کا ایک کونا مقدر میں لکھ دیا جاتاہے اور بچوں کو سختی سے تنبیہ کر دی جاتی ہے کہ’’ قریب بھی مت جانا‘ اس میں بہت سے جراثیم ہوتے ہیں‘‘۔اپنی چیزوں کا جائزہ لیجئے اور سوچئے کہ اِنہیں جب آپ نے پہلی بار خریدا تھا تو آپ کتنے خوش تھے‘ آپ نے گھنٹوں اچھی طرح دیکھ بھال کر یہ چیز پسند کی تھی

قیمت کے لیے بھاؤ تاؤ کیا تھااور جب گھر لے کر آئے تھے تو کتنے غرور سے اِسے استعمال کیا تھا۔پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ چیز رفتہ رفتہ آپ کے دل سے اترتی چلی گئی؟شائد اس لیے کہ یہی نظام قدرت ہے‘ ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ مارکیٹ میں پڑی کون سی چیز اس کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے‘لیکن ہر جگہ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور پڑا ہوا ہے جو صرف ہمارے لیے ہے اور کوئی دوسرا اْسے استعمال نہیں کر سکتا۔اسی طرح کئی چیزیں ایسی بھی ہیں جنہیں استعمال تو ہم نے کرنا ہے لیکن خریدے گا کوئی اور۔۔۔غالباًحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قول کا مفہوم ہے کہ انسان زندگی کے معاملات میں اتنا مگن ہے کہ اسے پتا ہی نہیں کہ جس کپڑے سے اس کا کفن بننا ہے وہ بازار میں آچکا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ہم انسان ہی نہیں ہیں


یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…