وہ اپنے فلسفی دوست کو امیر سے ملوانے لے گیا۔ امیر کی نیک نفسی اور دادو دہش کا بڑا شہرہ تھا۔ فلسفی دوست امیر سے مل کے بہت خوش ہوا۔ اس نے ایک گھنٹے کی ملاقات میں یہی دیکھا کہ حاجتمند آتے ہیں اور کچھ نہ کچھ لے کر واپس چلے جاتے ہیں۔ فلسفی نے امیر سے کہا ۔ ” یہ تو اسراف ہے، اگر تم اسی طرح دیتے رہے تو ایک نہ ایک دن تم تہی دست ہو جاؤ گے۔ اور انھی لوگوں میں منہ دکھانے کے لائق نہ رہو گے؟
امیر نے بے نیازی اورر استغنا سے جواب دیا۔ ” حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ اگر سردار بننا ہے تو نیکی کرو ، میں اسی قول پر عمل کر رہا ہوں!”
” سردار تو تم پہلے ہی سے ہو، اب تم فقیری کی طرف مراجعت کر رہے ہو!”
امیر کو یہ بات بُری لگی، اس نے اپنے اس مصاحب سے جو اس فلسفی کو لے کر آیا تھا، شکایتاً کہا۔ ” تم کیسے مردم شناس ہو کہ اس کُھّرے اور گستاخ کو اس محفل میں لے آئے ہو۔”
مصاحب نے ابھی کوئی جواب بھی نہ دیا تھا کہ فلسفی بول اُٹھا۔ ” امیر! میں تمھارا دوست ہوں، بدخواہ نہیں۔ تم جس طرح سب کے سامنے لوگوں کی حاجتیں پوری کرتے ہو۔ اس میں بُوئے تکبّر پائی جاتی ہے اور یہ اس نیک کام کو داغدار کر دیتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر کام میں اعتدال ہونا چاہیے۔ ” پھر نہایت عالمانہ انداز میں بات پوری کی۔ ” میں اس نکتے سے خوب اچھّی طرح واقف ہوں کہ اگر دوست اپنے دوست کا عیب چھپائے تو یہ خیانت ہو گی اور اگر اس عیب کو دوسروں کے سامنے بیان کرے تو غیبت، اور میں ان دونوں بُرائیوں سے بچنا چاہتا ہُوں۔”
وہ
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں