اتوار‬‮ ، 12 جنوری‬‮ 2025 

شرم و حیاء

datetime 13  دسمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عظیم پیغمبر تھے، جو اﷲ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلام ہوئے۔ ایک مرتبہ سفر میں تھے گرمی کا موسم تھا پاؤں ننگے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پاؤں میں چھالے پڑچکے ہیں، ذرا آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر ایک کنواں ہےوہاں سے کچھ نوجوان اپنی بکریوں کو پانی پلارہے ہیں اور ان سے کچھ فاصلے پر باحیا دو لڑکیاں کھڑی ہیں۔

جب آپ ں نے ان کو دیکھا تو حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ یہ دونوں لڑکیاں اس جنگل میں کیوں کھڑی ہیں اور کس کا انتظار کررہی ہیں؟حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں، باپ بوڑھا ہے وہ اس قابل نہیں کہ چل پھرسکے اور وہ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لئے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلاکر چلے جائیں گے تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے اور خود پانی کنوئیں سے نکالا اور ان کی بکریوں کو پلادیا۔ لڑکیاں جب خلاف معمول جلدی گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کردیا۔باپ خود بھی پیغمبر تھے فرمایا کہ جاؤ اس نوجوان کو بلاکر لاؤ تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔ اب ایک لڑکی جب موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی ، اس کا انداز کیا تھا۔ قرآن نے اس کے چلنے کا انداز جوکہ شرم و حیا سے لبریز تھا اس طرح بیان کیا ہے:ترجمہ: ’’پھر آئی ان دونوں میں سے ایک، شرم و حیا سے چلتی ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بدلہ دے جوآپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔‘‘(القصص ؍ ۲۵)حضرت شعیب علیہ السلام کی

بیٹی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی۔ شرم و حیا کا دامن نہیں چھوڑا نگاہ نیچے تھی۔بات بھی شرما کر زیادہ کھل کر نہیں کی۔اﷲ تعالیٰ کو اس کی حیا اس قدر پسند آئی کہ اس حیا کو قرآن بناکرحضرت محمد رسول اﷲﷺ پر نازل کردیا تاکہ پوری امت کی عورتوں کو پتہ چل جائے کہ جب وہ گھروں سے نکلیں تو شرم و حیا سے عاری لوگوں کی طرح گردن اٹھاکر نہ چلیں بلکہ دھیمی چال سے کہ شرافت اور حیا ان سے واضح نظر آئے۔

جس طرح شعیب علیہ السلام کی بیٹی شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔عملی اعتبار سے حیا کے تین شعبے ہیں:(۱) اﷲ تعالیٰ سے حیا(۲) لوگوں سے حیا(۳) اپنے نفس سے حیااﷲ تعالیٰ سے حیا کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کو نہ توڑے۔ لوگوں سے حیا یہ کہ حقوق العباد کو ادا کرے،لوگوں کے سامنے جن باتوں کے اظہار کو محبوب اور برا سمجھا جاتا ہے،اُن کے اظہار سے بچے اور اپنے نفس سے حیا یہ ہے کہ نفس کو ہر برے اور قابل مذمت کام سے بچائے۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ چند آیات اور احادیث کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے شرم و حیا پر کتنا زیادہ زور دیا ہے اور اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اسے ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

 

موضوعات:



کالم



پہلے درویش کا قصہ


پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…