تحریر(جاوید چوہدری) زیروپوائنٹ
مجھے یہ واقعہ صدر آصف علی زرداری کے ایک قریبی دوست نے سنایا‘ یہ دوست7دسمبر2011ء کو صدر آصف علی زرداری کے ساتھ دوبئی گیا تھا‘ صدر آصف علی زرداری کی چھ اور سات دسمبر کی درمیانی رات طبیعت خراب ہو گئی‘ فوج کی خواہش تھی صدر کو ملٹری ہسپتال میں داخل کرایا جائے‘ صدر بھی تیار تھے تا ہم ان کی خواہش تھی ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد میڈیا کو کوریج سے روکا جائے گا اور ان کی بیماری سے متعلق کسی نیوز چینل پرکوئی ’’ٹکر‘‘ نہیں چلے گا‘ یہ طے ہو گیا لیکن پھر دوستوں کے کہنے پر صدر نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا‘ دوستوں کا خیال تھا صدر ملٹری ہسپتال میں اکیلے ہو جائیں گے‘ صدر کی سیکورٹی فوج کے پاس چلی جائے گی‘ ہسپتال ٹرپل ون بریگیڈ کے حصار میں آجائے گا ‘ملک میں افواہوں کا بازار گرم ہو جائے گا اور یوں حکومت مزید کمزور ہو جائے گی۔ صدر کے ایک دوست کا خیال تھا ہسپتال کے باہر جب ٹرپل ون بریگیڈ آ جائے گا تو صدر کے ساتھ فیملی اور دوستوں کا رابطہ بھی کم ہو جائے گا اور ہم سب فوجی ڈاکٹروں کی رپورٹ کے محتاج ہو جائیں گے چنانچہ اس دوست نے صدر کو ’’والیم‘‘ کی دو گولیاں دے کر سلا دیا اور اگلے دن انہیں دوبئی شفٹ کر دیا‘ پاکستانی ایمبیسی نے ایرانی ہسپتال میں علاج کا بندوبست کر رکھا تھا لیکن صدر کے دوست نے امریکن ہسپتال میں علاج کا ارینجمنٹ کرا دیا مگر یہ وہ واقعہ نہیں جس کیلئے میں یہ سطریں تحریر کر رہا ہوں‘ وہ واقعہ اس سے آگے آئے گا۔ صدر آصف علی زرداری دوبئی کے امریکن ہسپتال میں داخل ہو گئے‘ انہیں خصوصی کمرے میں داخل کر دیا گیا‘ صدر کا علاج شروع ہو گیا ‘ دوبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المختوم کو معلوم ہوا تو یہ صدر آصف علی زرداری کی عیادت کیلئے آئے‘ صدر کے یہ دوست اس وقت کمرے کے باہر کوریڈور میں کھڑے تھے‘ آپ شیخ محمد بن راشد المختوم کی آمد کا منظراب صدر کے اس دوست کی زبانی سنیے۔ دوست کا کہنا تھا ’’صدر آصف علی زرداری کمرے میں تھے‘ یہ صبح کا وقت تھا‘ صدر کے جسم سے منسلک مشینوں اور آلات کے مانیٹر کمرے سے باہر تھے‘ ایک ڈاکٹر اور اس کے جونیئر اس وقت صدر کی ای سی جی کر رہے تھے‘ کمرے کے باہر سرخ لائٹ روشن تھی‘ میں نے دور سے شیخ محمد کو آتے دیکھا‘ شیخ کے ساتھ اس کا صرف ایک سٹاف آفیسر تھا‘ شیخ چلتا ہوا آ رہا تھا‘ کوریڈور میں ہسپتال کا عملہ بھی تھا‘ ڈاکٹر‘ نرسیں‘ وارڈ بوائے‘ سویپرز‘ مریض اور ان کے لواحقین بھی اس وقت کوریڈور سے گزر رہے تھے ‘ شیخ کوریڈور میں چلتا ہوا کمرے کی طرف آ رہا تھا لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی‘ کوئی سویپر‘ کوئی ڈاکٹر‘ کوئی نرس اور کوئی وارڈ بوائے شیخ کے احترام میں نہیں رکا‘وہ کمرے کے سامنے آیا‘ کمرے کے باہر سرخ بتی جل رہی تھی‘ وہ کمرے کے سامنے کھڑا ہو گیا‘ شیخ کو وہاں کھڑے دس منٹ ہو گئے تو میں نے دروازہ کھولا‘ اندر گیا اور صدر کو بتایا ’’شیخ محمد دس منٹ سے باہرکھڑا ہے‘‘ صدر نے میڈیکل سٹاف سے پوچھا ’’کیا ہم اس عمل کو دس منٹ کیلئے روک سکتے ہیں‘‘ ڈاکٹر نے ایک لمحہ کیلئے سوچا اور ہاں میں سر ہلا دیا‘ نرس نے صدر کے جسم سے چپکے ہوئے آلات اتاردئیے‘ میں نے صدر کو کنگھی دی‘ صدر نے کنگھی کی‘ میں باہر گیا اور شیخ محمد کو اندر لے آیا‘ شیخ محمد نے صدر کی خیریت پوچھی اور علاج کے بارے میں معلومات لینے لگا‘ یہ گفتگو جاری تھی کہ ڈاکٹر دوبارہ اندر آئے اور بتایا ’’دس منٹ ہو چکے ہیں‘ اب شیخ محمد جا سکتے ہیں‘‘ شیخ محمد نے ڈاکٹر‘ میرا اور صدر تینوں کا شکریہ ادا کیااور کمرے سے نکل گیا‘ میں نے دیکھا شیخ محمد آیا تھا یا وہ جا رہا تھا تو صدر کے کمرے کے باہر بیٹھا عملہ تک شیخ محمد کے استقبال کیلئے کھڑا نہیں ہوا‘ شیخ اسی طرح اکیلا چلتا ہوا ہسپتال سے باہر نکل گیا‘‘ ۔
میں نے صدر صاحب کے دوست سے عرض کیا ’’ملک صاحب یہ قوموں کی ترقی کا لٹمس ٹیسٹ ہے‘ دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم پروٹوکول‘ سیکورٹی اور صدارتی اور وزارتی استقبال سے مبرا ہوتی ہے جبکہ ہر غیر ترقی یافتہ قوم میں یہ بیماری بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ‘ آپ کبھی پاکستان کے حکمرانوں کے دوروں کا مشاہدہ کریں‘ آپ کبھی ان کے ساتھ کسی ہسپتال جا کر دیکھیں‘ صدر‘ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ‘ گورنرز یا وزیر کے دورے سے پہلے پولیس‘ رینجرز اور فوج پورے ہسپتال کو نرغے میں لے لیتی ہے‘ وہ ہسپتال اس دن مریضوں کیلئے ممنوعہ جگہ بن جاتا ہے‘ پولیس ایمبولینس تک ہسپتال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی‘ ہسپتال کا سارا عملہ وی آئی پی کا گیٹ پر استقبال کرتا ہے‘ ہسپتال میں وی وی آئی پی کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں‘ اس کے راستے میں پھول بچھائے جاتے ہیں‘ سرجن آپریشن تھیٹر میں مریضوں کے پیٹ کھلے چھوڑ کر وزیراعلیٰ کے استقبال کیلئے باہرآ جاتے ہیں اور یہ وی وی آئی پی جس وارڈ‘ جس یونٹ میں چاہے چلا جاتا ہے اور اس کی سیکورٹی بھی بھاری بوٹوں اور بھاری اسلحہ کے ساتھ وارڈ میں داخل ہو جاتی ہے اور کوئی ڈاکٹر انہیں ٹوکنے کی جرات نہیں کرتا جبکہ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ اقوام کے سربراہان جب کسی ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ سٹاف ہوتا ہے اور نہ ہی سیکورٹی۔ یہ مریض کی عیادت کیلئے بھی ڈاکٹروں کی ہدایات کی پابندی کرتے ہیں‘‘ میں نے انہیں بتایا ’’ملک صاحب جون 2011ء میں برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون‘ ڈپٹی پرائم منسٹر نک کلیگ کے ساتھ لندن کے ایس ٹی گائیز ہسپتال میں اینڈریو سارٹن نام کے مریض سے ملاقات کیلئے گئے‘ یہ دونوں مریض کے کمرے میں تھے‘ اتنے میں آرتھوپیڈک یونٹ کا سربراہ ڈاکٹرنن آ گیا‘ ڈاکٹر وزیراعظم اور ڈپٹی پرائم منسٹر کو دیکھتے ہی ان پر چڑھ گیا اور اس نے اونچی آواز میں پوچھا ’’تم دونوں میری اجازت کے بغیر مریض کے کمرے میں کیوں داخل ہوئے‘‘ ڈاکٹر کا کہنا تھا میں اس شعبے کا سربراہ ہوں اور میری اجازت کے بغیر کوئی شخص اس شعبے میں داخل نہیں ہو سکتا جبکہ تم لوگ نہ صرف بلا وجہ خود اندر آ گئے بلکہ تم میڈیا اور صحافیوں کو بھی ساتھ لے آئے‘ ڈاکٹر نے یہ کہہ کر دونوں کو فوراً کمرے سے نکل جانے کا حکم دے دیا‘ دونوں نے درجنوں کیمروں کے سامنے ڈاکٹر سے معافی مانگی اور ہسپتال سے باہر آ گئے‘ میں نے یہ کارروائی ٹیلی ویژن پر دیکھی تھی‘ آپ بھی یہ ویڈیو یو ٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔
یہ برطانیہ کی مثال ہے‘ آپ کہہ سکتے ہیں برطانیہ پرانی جمہوریت ہے‘ یہ تین سو سال سے مہذب ملک ہے لیکن دوبئی تو ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور شیخ محمد بن راشد المختوم مسلمان بھی ہیں اور عربی شیخ بھی۔ یہ لوگ اگر ہسپتالوں کے دورے اور مریضوں کی عیادت کے دوران یورپی اور امریکی روایات قائم کر سکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا اس کیلئے بھی کسی این آر او کی ضرورت ہے‘ کیا سپریم کورٹ حکومت کو اس سے روک رہی ہے‘ کیا اس کے راستے میں اپوزیشن یا تحریک انصاف مزاحم ہے‘ کیا یہ بھی امریکی‘ یہودی اور بھارتی سازش ہے؟ اور کیا ہم عاجزی اور انکساری کی ان روایات کیلئے بھی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضے کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا اس کیلئے بھی ہمیں پانچ سال پورے ہونے کا انتظار کرنا چاہئے؟ یہ وہ روایات ہیں جو اس وقت تمام مہذب معاشروں اور ممالک میں موجود ہیں لیکن ہم اس کیلئے بھی آسمان سے فرشتوں کے اترنے کا انتظار کر رہے ہیں‘ ہمارے لیڈر جمہوری ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے اندر بدبودار آمروں کی روحیں قابض ہیں‘ یہ نام سے مسلمان ہیں لیکن ان کے مزاج فرعونی ہیں‘ یہ نماز پڑھنے بھی جاتے ہیں تو ان کے دائیں بائیں اور پیچھے باوردی گارڈز کھڑے ہوتے ہیں اور یہ مریضوں کی عیادت کیلئے بھی جاتے ہیں تو ان کے استقبال کیلئے پورے ہسپتال کو بنکر بنا دیا جاتا ہے‘ یہ کیسے لوگ ہیں‘ان لوگوں نے آج تک قرآن مجید سے کچھ سیکھا‘ اسلام سے کچھ سیکھا‘ جمہوریت سے کچھ سیکھا اور نہ ہی اس یورپ سے کچھ سیکھا جس سے یہ لوگ آتے ہیں اور جہاں انہوں نے چلے جانا ہے۔ہم کس قدر نا سمجھ لوگ ہیں‘ ہم سے دوبئی بھی آگے نکل گیا لیکن ہم اکیسویں صدی میں فرعونی کلچر کے ساتھ زندہ ہیں۔
یہ کالم 7,1,2012کو شائع ہوا