بدھ‬‮ ، 25 جون‬‮ 2025 

فیوز

datetime 15  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

(جاویدچودھری)زیروپوائنٹ

بریگیڈیئر نیاز احمد پاک فوج کے ایک طلسماتی کردار ہیں‘ یہ 1977ء میں لاہور کے بریگیڈ کمانڈر تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی‘ بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کا احتجاج شروع ہو چکا تھا‘ لاہور میں کرفیو نافذ کر دیا گیا مگر اس کے باوجود لاہور میں مظاہرے جاری تھے‘ وزیراعظم نے بریگیڈیئر نیاز کو حکم دیا ’’ آپ مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مار دیں‘‘ یہ حکم حیران کن تھا‘ بریگیڈیئر نیاز نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’ سر! میں اپنے جوانوں کو اپنے لوگوں پر گولی چلانے کا حکم کیسے دے سکتا ہوں‘ ‘بھٹو صاحب یہ انکار ہضم نہ کر سکے چنانچہ بریگیڈئر نیاز کا کورٹ مارشل ہوااور ان سے ان کا رینک اور تمام فوجی مراعات واپس لے لی گئیں‘ بریگیڈیئر نیاز فٹ پاتھ پر آ گئے لیکن فوج میں ان کی قدر میں اضافہ ہو گیا‘ یہ نوجوان فوجی آفیسرز کے آئیڈیل بن گئے‘ بریگیڈیئر صاحب شروع میں بے روزگار رہے‘ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ آیا تو انہوں نے فوج کو رضائیاں سپلائی کرنا شروع کر دیں‘ فوجی آفیسرز بریگیڈیئر نیاز کی عزت کرتے تھے چنانچہ سپلائی کا کاروبار چل پڑا‘ بریگیڈیئر نیاز کو جلد ہی ایک چینی کمپنی مل گئی اور یوں انہوں نے چین اور پاکستان میں ہتھیاروں کی سپلائی شروع کر دی‘ یہ کام وقت کے ساتھ بڑھتا رہا‘ چین کے ساتھ یورپ اور امریکا کی کمپنیاں شامل ہوئیں اور یوں بریگیڈیئر نیاز ارب پتی ہو گئے‘ جنرل ضیاء الحق کا دور آیا تو بریگیڈیئر نیاز کے حلقہ احباب میں دو خاندانوں کا اضافہ ہوگیا‘ بریگیڈیئر صاحب کے ایک دوست نے ان کی ملاقات کرنل پرویز مشرف نام کے ایک جوان افسر سے کروائی‘ کرنل پرویز مشرف بریگیڈئر نیاز سے بہت متاثر تھے‘ گفتگو ہوئی تو دونوں ایک دوسرے کے دوست بن گئے‘ یہ دوستی آگے چلتی رہی اور دونوں ایک دوسرے کے خاندان کا حصہ بن گئے‘ دوسری فیملی شریف خاندان تھا‘ بریگیڈیئر نیاز کا میاں محمد شریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے رابطہ ہوا اور یہ رابطہ بھی آگے بڑھتا چلا گیا‘ بریگیڈیئر صاحب میاں شہباز شریف سے بہت متاثر تھے‘ یہ ان کے پریکٹیکل وژن اور انتظامی صلاحیتوں کے معترف تھے۔
کرنل پرویز مشرف اور میاں شہباز شریف دونوں بریگیڈیئر نیاز کے دوست بن گئے‘ یہ دونوں اب اپنے اپنے شعبے میں ترقی کرنے لگے‘ میاں شہباز شریف سیاست میں آ گئے جبکہ کرنل پرویز مشرف فوج میں آگے بڑھنے لگے‘ کرنل پرویز مشرف بریگیڈیئر پرویز مشرف ہوئے‘ پھر میجر جنرل پرویز مشرف ہوئے اور آخر میں لیفٹیننٹ جنرل پرویز مشرف ہو گئے‘ یہ ان تمام مراحل میں بریگیڈیئر نیاز سے مشاورت کرتے رہے‘ جنرل پرویز مشرف 1995ء میں منگلا کے کور کمانڈر بنے تو بریگیڈیئر نیاز ہر مہینے ان کے پاس آتے تھے اور کئی دن تک ان کے پاس قیام کرتے تھے‘ جنرل مشرف انہیں اپنے والد‘ اپنے بڑے بھائی کا درجہ دیتے تھے‘اکتوبر 1998ء میں آرمی چیف بنانے کا مرحلہ آیا تو بریگیڈیئر نیاز نے اپنا کردار ادا کیا‘ یہ میاں شریف اور میاں شہباز شریف سے ملے اور جنرل پرویز مشرف کی سفارش کی‘ یہ سفارش کام کر گئی اور یوں جنرل پرویز مشرف 6 اکتوبر1998ء کو آرمی چیف بنا دیئے گئے‘ یوں ایک نئے دور کا آغاز ہوا‘ یہ دور 12 اکتوبر 1999ء کو اختتام پذیر ہو گیا‘ ملک میں مارشل لاء لگا‘ جنرل پرویز مشرف نے ’’ٹیک اوور‘‘ کیا اور شریف خاندان قیدی بن گیا‘ مقدمے قائم ہوئے اور سزاؤں کا عمل شروع ہو گیا‘ بریگیڈیئر نیاز اور جنرل مشرف کی دوستی میں بھی اضافہ ہو گیا‘ یہ ان کے سیاسی امور میں مشیر بن گئے‘ سعودی عرب کا شاہی خاندان اور لبنان کی حریری فیملی ایکٹو ہوئی‘ شریف خاندان کا بریگیڈیئر نیاز سے بھی رابطہ استوار ہوا‘ جنرل پرویز مشرف اور شریف خاندان کے درمیان معاہدہ ہوا‘ حریری خاندان اس معاہدے کا ضامن بنا‘ پی آئی اے کے موجودہ سربراہ شجاعت عظیم نے اس معاہدے میں اہم کردار ادا کیا‘ یہ اس وقت حریری خاندان کے ذاتی پائلٹ تھے‘ بریگیڈیئر نیاز احمد نے جنرل پرویز مشرف کو مشورہ دیا ’’سعودی عرب ذمہ داری اٹھا رہا ہے‘ آپ شریف خاندان کو جدہ جانے دیں‘ یہ کیس بلاوجہ آپ کا وقت ضائع کر رہا ہے‘‘ جنرل مشرف نے یہ سارے مشورے مان لئے اور یوں شریف خاندان دسمبر 2000ء میں سعودی عرب منتقل ہو گیا اور یوں ایک اور دور ختم ہو گیا۔
بریگیڈیئر نیاز کی سیاسی خدمات کا تیسرا دور 2004ء اور 2005ء میں شروع ہوا‘ جنرل پرویز مشرف پاکستان مسلم لیگ ق کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ امریکا بھی ان پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی واپسی کیلئے دباؤ ڈال رہا تھا‘ جنرل مشرف نے محسوس کیا محترمہ واپس آ گئیں یا پاکستان مسلم لیگ ق بیٹھ گئی تو ان کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا چنانچہ انہوں نے میاں شہباز شریف کی واپسی کا راستہ کھولنے کا فیصلہ کیا‘ یہ ذمہ داری بریگیڈیئر نیاز کو سونپی گئی‘ بریگیڈیئر صاحب نے میاں شہباز شریف سے رابطہ کیا اور انہیں ’’مائینس نواز شریف پلان‘‘ پیش کر دیا لیکن میاں شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی سے غداری سے انکار کر دیا تاہم دونوں کے درمیان رابطہ اور گفتگو جاری رہی‘ میاں شہباز شریف اس دوران بیمار ہو گئے‘ بریگیڈیئر نیاز نے انہیں جنرل مشرف سے علاج کیلئے امریکا جانے کی اجازت لے کر دی‘ شہباز شریف امریکا چلے گئے‘ 2005ء میں میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز شدید بیمار ہو گئے‘ بریگیڈیئر نیاز نے حسن نواز کے لندن میں علاج کی اجازت بھی لے دی‘ میاں نواز شریف اپنے صاحبزادے کی عیادت کیلئے لندن جانا چاہتے تھے‘ بریگیڈیئر نیاز سے ان کا رابطہ ہوا‘ بریگیڈیئر نیاز نے جنرل پرویز مشرف سے سفارش کی مگر‘ چودھری شجاعت حسین اور شیخ رشید نے اس تجویز کی مخالفت کر دی‘ ان کا خیال تھا میاں برادران ایک بار سعودی عرب سے نکل گئے تو پھر انہیں کوئی شخص پاکستان آنے سے باز نہیں رکھ سکے گا‘ جنرل مشرف بھی میاں صاحب کو اجازت دینے کے حق میں نہیں تھے لیکن یہ بریگیڈیئر نیاز کو انکار نہ کر سکے اور یوں میاں نواز شریف جنوری 2006ء کو لندن پہنچ گئے‘ یہاں سے ایک اور دور شروع ہوا۔ بے نظیر بھٹو واپس آئیں‘ میاں نواز شریف بھی آئے‘ محترمہ شہید ہوئیں‘2008ء کے الیکشن ہوئے اور جمہوریت اور پرویز مشرف آمنے سامنے کھڑے ہو گئے۔
جنرل پرویز مشرف نے 18 اگست 2008ء کو صدارت سے استعفیٰ دیا‘ یہ لندن شفٹ ہوئے تو ان کے پاس رہنے کیلئے گھر نہیں تھا‘ بریگیڈیئر نیاز کے پاس لندن میں اپنا گھر تھا‘ جنرل پرویز مشرف تین ماہ اس گھر میں مقیم رہے‘ جنرل مشرف کے خلاف مقدمات بننا شروع ہوئے‘ فیصلے ہونے لگے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور ختم ہوا اور بریگیڈیئر نیاز کے روکنے کے باوجود پرویز مشرف 24 مارچ 2013ء کو پاکستان واپس آ گئے‘ ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا‘ الیکشن ہوئے‘ میاں نواز شریف کی حکومت بنی اور جنرل مشرف کے خلاف غداری کا کیس شروع ہو گیا‘ بریگیڈیئر نیاز احمد 82 سال کے ہو گئے‘ یہ پچھلے سال جنرل مشرف سے ملاقات کیلئے ان کے فارم ہاؤس پر گئے‘ وہاں ان کی طبیعت خراب ہو ئی‘ انہیں ہسپتال پہنچایا گیا‘ یہ ’’کوما‘‘ میں چلے گئے اور یہ اب تین ماہ سے ’’ونیٹی لیٹر‘‘ پر ہیں‘ اس دوران ایک اور دلچسپ واقعہ پیش آیا‘ جنرل راحیل شریف آرمی چیف بن گئے‘ جنرل مشرف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان ایک دلچسپ تعلق موجود تھا‘ جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید جنرل مشرف کے انتہائی قریبی دوست تھے‘ یہ دونوں بیچ میٹ بھی تھے اور قریبی ساتھی بھی۔ یہ دونوں روزانہ ایک دوسرے سے ملتے تھے‘ میجر شبیر شریف کی والدہ نے میجر پرویز مشرف کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا‘ میجر شبیر شریف 3 دسمبر 1971ء کو شہید ہو گئے‘میجر شبیر شریف کی شہادت کے بعد پرویز مشرف نے ہمیشہ راحیل شریف کے کیریئر میں ان کی مدد کی‘جنرل مشرف آرمی چیف تھے تو یہ راحیل شریف کو بھائی کی طرح ’’ٹریٹ‘‘ کرتے تھے‘ راحیل شریف عموماً آرمی ہاؤس میں ناشتہ کرتے تھے‘ یہ راحیل شریف 29 نومبر2013ء کو آرمی چیف بن گئے‘ یہاں دو تھیوریاں سامنے آئیں‘ فوج کے بعض اعلیٰ عہدیداروں کا خیال ہے‘ میاں نواز شریف جنرل مشرف اور جنرل راحیل کے اس تعلق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے‘ میاں صاحب سے یہ تعلق جان بوجھ کر چھپایا گیا تھا جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے میاں صاحب اس تعلق سے آگاہ تھے اور یہ جنرل مشرف کو جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں سزادینا چاہتے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے؟ ہم سرے دست کچھ نہیں کہہ سکتے مگر یہ کہانی اب آخری فیز میں داخل ہو چکی ہے‘ جنرل پرویز مشرف 89 دن آرمی ہسپتال میں رہنے کے بعد 31 مارچ 2014ء کو خصوصی ٹریبونل میں پیش ہو گئے‘ جنرل مشرف کی والدہ شدید علیل ہیں‘ یہ والدہ کی عیادت کیلئے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں‘ میاں شہباز شریف جنرل پرویز مشرف سے جان چھڑانا چاہتے ہیں‘ ان کا خیال ہے ہم لوگ بے شمار مسائل کا شکار ہیں‘ ہمیں کم از کم اپنی کشتی سے مشرف کا بوجھ ضرور اتار دینا چاہیے لیکن میاں نواز شریف اور چوہدری نثار اس کیس کا منطقی نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں‘ ان کا خیال ہے جنرل مشرف کو اسی طرح عمر قید کی سزا ہونی چاہیے جس طرح 6 اپریل 2000ء کو میاں نواز شریف کو طیارہ اغوا کرنے کے جرم میں دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی‘ پھر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اسی طرح صدر کے پاس معافی کی درخواست جانی چاہیے جس طرح شریف خاندان کی گئی تھی اور آخر میں جنرل مشرف کو اسی طرح طیارے میں بٹھا کر جدہ روانہ کیا جانا چاہیے جس طرح دسمبر 2000ء میں شریف خاندان کو بھجوایا گیا تھا لیکن سوال یہ ہے‘ کیا یہ ہو جائے گا؟۔ میرا خیال ہے اگر یہ ہو گیا تو پھر اداروں کے درمیان تعلقات کی یہ گرمی باقی نہیں رہے گی۔ تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طر ف چل پڑے گا اور اگر یہ نہ ہوا تو نواز شریف حکومت کی کریڈ یبلٹی کو شدید نقصان پہنچے گا چنانچہ یہ طے ہے خربوزہ ادھر گرے یا اُدھر نقصان بہرحال میاں نواز شریف کو ہو گا اور حکومت اگر اس نقصان سے بچنا چاہتی ہے تو اسے جنرل پرویز مشرف کی والدہ کی علالت کا فائدہ اٹھا لینا چاہیے‘ جنرل مشرف کی والدہ کی علالت اس ایشو کو’’فیوز‘‘کرنے کا آخری موقع ہے‘ یہ موقع بھی نکل گیا تو سیاسی حکومت اور فوج میں دوریاں پیدا ہو جائیں گی اور یہ دوریاں نوزائیدہ جمہوریت کیلئے خطرناک ثابت ہوں گی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ٹیسٹنگ گرائونڈ


چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…