ماں احسانات‘ احساسات‘ خوبیوں اور جذبات کا وہ مجموعہ ہے جو سارے زمانے کے وار اورسارے موسم کی سختیاں اپنے ناتواں جسم پر سہتی ہے مگراپنے لخت جگرکے لیے خوشیاں سمیٹنے کی تگ و دو میں مگن رہتی ہے ۔ماں کی ممتا کا زمانہ معترف ہے‘ تاریخ انسانی ایسے حقائق سے بھری پڑی ہے کہ جب ماں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بیٹے کو بچا لیا‘ جب ماں خود کئی کئی دن بھوکی رہی اور اپنے بچوں کو بھوکا سونے نہ دیا۔ مگر دنیا میں بچوں کی اپنی والدہ سے محبت ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ موجود ہے۔بھارت کے شہرکانپور کی ایک خاتون ہے وجے کماری ۔۔۔ 1994ء میں وجے کماری پر قتل کا الزام لگا‘ یہ الزام اگرچہ ثابت نہ ہو سکا مگر وجے کماری کو جیل ہو گئی‘ قتل کیس کا چلا تو چلتا ہی گیا‘ گواہان‘ شواہد اور تفتیش و تحقیق کا مرحلہ پھیلا تو برسوں تک پہنچ گیا‘ جیل میں پہنچنے کے کچھ دنوں بعد وجے کماری کے ہاں ایک بچے نے جنم لیا‘ وجے کماری نے اس کا نام کنہیا رکھا‘ یہ جیل میں ہی اس کی پرورش کرتی رہی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی رہی‘ وجے کماری کا خاوند بھی کچھ عرصے بعد اسے بھول گیا‘
یہ اکیلی کال کوٹھڑی میں ایک ایک لمحہ گن گن کر گزارنے لگی مگر کنہیا کی موجودگی اس کی تنہائی اور مشکلات کا واحد سہارا تھی‘ اس نے اپنے بچے کے سہارے برسوں جیل میں گزار دئیے‘ جب بچہ بالغ ہونے کے قریب پہنچ گیا تو جیل انتظامیہ نے اسے جیل سے نکال کر آزادانہ زندگی گزارنے کا حکم صادر کر دیا‘ وجے کماری بیٹے کی آزادی کی متمنی ہوتے ہوئے بھی اسے جیل سے باہر نہیں جانے دینا چاہتی تھی مگر قانون ماں کے جذبات کے آگے باندھی نہیں بن سکتا تھا۔ دوسری طرف وجے کماری کو یہ خیال بھی تھا اگر کنہیا اس کے ساتھ جیل ہی میں رہا تو اس کی زندگی برباد ہو جائے گی۔ جیل انتظامیہ کاحکم ملتے ہی ماں نے اپنے دل پر پتھر رکھا اور کنہیا کو آزاد کر دیا اورخود تن تنہا جیل کی سلاخوں کے پیچھے دوہرے عذاب میں مبتلا ہو گئی‘ ایک طرف اسے آزادی جیسے نعمت سے محروم کر دیا گیا تو دوسری طرف اس کی زندگی کا سرمایہ‘ اس کا مان‘ اس کا سکون کنہیا بھی اس سے جدا کر دیاگیا۔ بیٹے کی جدائی کا غم صرف وہی ماں جان سکتی ہے جس کا لخت جگر اس کی کھلی آنکھوں کے سامنے اس سے چھین لیا جائے۔ وجے کماری جیل میں پڑی غم کا نوحہ بن گئی‘ یہ ہر لمحے اپنے بچے کیلئے تڑپتی رہی جبکہ انتظامیہ نے کنہیا کو جیل سے باہر نکال کر یتیم خانے کے حوالے کر دیا‘ کنہیار اب ماں کی آغوش سے نکل کر معاشرے کے رحم و کرم پر تھا‘
یہ دو‘تین ماہ بعد جیل جاتا اور والدہ سے چند لمحے ملاقات کرتا۔ یہ لمحات دونوں ماں بیٹے کی زندگی کی ڈوری بن گئے ‘ خاص طور پر وجے کماری کیلئے بیٹے کی ملاقات ہی اس کی ڈھارس بن جاتی اور وہ ہر ملاقات کے بعد اگلی ملاقات کیلئے لمحہ لمحہ تڑپ تڑپ کر گزار دیتی۔ وقت سرکتا رہا اور کیس عدالت میں چلتا رہا یہاں تک اس کیس کا فیصلہ ہو گیا اور عدم شواہد پر وجے کماری کی ضمانت پر رہائی کا عدالتی حکم صادر ہو گیا۔ عدالت نے حکم دیا وجے کماری 10ہزار کے مچلکوں پر رہا کر دی جائے۔ یہ کماری کی تاریک زندگی میں روشنی کی کرن تھی مگر اگلے ہی لمحے اس کی زندگی ایک بار پھر ظلمت کدے کا شکار ہو گئی۔ دس ہزار کے مچلکے جمع کروانے کیلئے وجے کماری کے پاس اتنی رقم نہیں تھی‘ وہ یہ رقم لاتی بھی کہاں سے۔ اس کا خاوند کب کا اسے چھوڑ چکا تھا‘ اس کے عزیز رشتے کبھی اس کا چہرہ دیکھنے جیل نہیں آئے‘ سبھی نے مشکل میں اس کو اکیلا چھوڑ دیا تھا اور رہ گیا بیٹا تو پہلے ہی یتیم خانے میں پرورش پا رہا تھا۔ امید کی یہ کرن مندمل ہوئی تو وجے کماری نے سوچ لیا اس کی ساری زندگی اب جیل میں ہی گزری گی اور وہ کبھی آزاد فضاؤں میں سانس نہیں لے سکے گی۔ اس دوران کنہیا جوان ہو گیا اور اس نے یتیم خانے کو چھوڑ کر ملبوسات بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دیا‘ جہاں وہ چند روپے کے عوض کام کرتا ‘ اسی رقم سے اپنا خرچ چلاتا اور دو تین ماہ بعد ماں سے ملنے جاتا۔ وہ جب بھی ماں سے ملنے جاتا وہ ماں سے وعدہ کرتا ’’ماں میں تجھے آزاد کراؤں گا‘‘ بیٹے کے اس عہد پر ماں کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے۔ وقت گزرتا رہا اور کنہیا نے ماں کو رہا کروانے کا تہیہ کر لیا‘ وہ فیکٹری سے ملنے والی رقم سے چند روپے بچاتا اور جمع کر لیتا۔ یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا‘ یہاں تک کہ ایک دن اس نے وکیل سے رابطہ کیا‘ اس نے ساری داستاں وکیل کے گوش گزار کر دی‘ وکیل نے اس کو حوصلہ دیا اور مقدمے لڑنے کا وعدہ کر لیا۔ کنہیار نے برسوں کی جمع پونجی اپنے وکیل کے ہاتھ پر رکھی اور ماں کی آزادی کا خواب دیکھنے لگا‘ وکیل نے دوبارہ درخواست دائر کی‘ کیس متحرک ہوا ‘ سماعت شروع ہوئی یہاں تک کہ مئی 2013ء میں وجے کماری کو رہائی مل گئی۔ بیٹے کی برسوں کی محنت و مشقت اور ماں سے محبت جیت گئی اور بھارت کا اندھے انصاف کا نظام ہار گیا۔ وجے کماری نہ صرف آزاد ہو گئی بلکہ اس کی اصل دنیا (اس کا بیٹا) اسے دوبارہ مل گیا۔