منگل‬‮ ، 24 جون‬‮ 2025 

امریکی پروفیسر قرآنی واقعہ پر لاجواب ہو گیا

datetime 10  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یہ 9/11کے بعد کا واقعہ ہے۔ یونیورسٹی آف مشن گین امریکا کے پروفیسر انٹنی بلیک کی نوک جھونک اپنے مسلمان کو لیگ عثمان باری سے مجادلے اور بحث و مباحثے کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ پروفیسر بلک پہلے ہی سے اسلام کا سخت ناقد تھا لیکن 9/11کے واقعے کے بعد وہ ناقد ہی نہیں بلکہ اسلام اور مسلم دشمن بھی بن چکا تھا۔ اس کی تنقید کا پسندیدہ موضوع عورتوں کے متعلق اسلام کے صاحکامات تھے۔ خاص طور پر رسول اکرم ؐ کی گیارہ بیویوں کو وہ سخت تنقید کا نشانہ بناتا تھا۔

پچھلے دنوں اس نے نہ جانے کہاں سے حضورؐ کے حضرت زینبؓ بنت حجش کے ساتھ نکاح کی تفصیلات پڑھیں اور اس کے بعد تو گویا اس کا دماغ ہی الٹ گیا۔ اسلام دشمنی اور رسول اکرمؐسے بعض سے اس کا سر میں ایسا سودا سمایا کہ اس نے رات کے گیارہ بج ستائیس منٹ پر پروفیسر عثمان باری کے گھر فون کیا۔ چھوٹتے ہی بولا: مسٹر بار ی کیا تم کل مجھے دس منٹ کے مل سکتے ہو؟ان دس منٹوں میں ‘میں نے تمہیں تمہارے مذہب کی اصل حقیقت بتاؤں گا‘پروفیسر باری اس کے جوشیلے اور جارحانہ لہجے سے سمجھ گیا کہ بلیک کا دل کسی بات سے مزید سیاہ ہوا ہے مگر وہ اپنے رویے کو نارمل رکھتے ہوئے بولا: اچھا دلچسپ ! کی اسلام کے خلاف کوئی نیا انکشاف کرنے کا ارادہ ہے؟وہ بولا یہی سمجھ لو‘ مگر اس دفعہ میرا دعویٰ ہے کہ’’ تم یا تو اپنے حق پر ست ہونے کا اعلان واپس لے لوگے یا پھر اسلام سے توبہ کر لو گے‘‘بلیک اتنا جذباتی تھا کہ ٹیلی فون پر جلی کٹی سناننے پر تلا بیٹھا تھا مگر باری نے کل سپہ پہر کا وقت مقرر کر کے جان چھڑانا بہتر خیال کیا۔ بلیک ‘باری کے اس قدر ٹھنڈے رد عمل پر سٹپٹا گیا لیکن اس کے پاس مقررہ وقت تک کا انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ البتہ اس کے ذہن میں یہ بات ضرورآئی کہ پروفیسر باری اسلام کے حوالے سے اتبا پر اعتماد ہے کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتاکہ اس کے دین میں کوئی خلاف حقیقت بات ہو گی لیکن اس کے نزدیک یہ اعتماد نہیں‘

’’تعصب ‘‘ اور ’’ہٹ دھرمی‘‘ تھی ۔ مگر پھر بھی اسے یقین تھا کہ اس کے انکشاف پر باری کے منہ کو ایسی چپ لگے گی کہ کم از کم وہ اس کے سامنے ہمیشہ سر جھکائے رکھے گا۔سہ پہر چار بے اس نے اپنے نوٹس تیار کیے اور پوری تیاری کے ساتھ مقررہ جگہ پر پہنچ گیا۔ وہاں باری اس کا منتظر تھا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد بلیک بولا: مسٹر باری تمہیں تو معلوم ہی ہو گا کہ تمہارے زید بن حارثؓ کو منہ بولا بیٹابنایا ہوا تھا اور پھر خود انہوں نے اس کی شادی اپنی

پھوپھی زاد زینبؓ بنت حجش سے کی تھی لیکن یہ ایک ناکام شادی ثابت ہوئی اور زیدؓ نے زینبؓ کو طلاق دے دی اور اس کے بعد انہوں نے خود زینبؓ سے شادی کر لی۔ حالانکہ عرب میں منہ بولے یعنی متبنیٰ بیٹے کی مطلقہ سے شادی معیوب ہی نہیں حرام کے درجے کی چیز سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ اس وقت بھی مخالفین نے ان پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ اصل میں یہ سب کچھ حضورؐکی خواہش پر ہوااور اسی کی خاطر انہوں نے عرب کی پرانی روایت کی خلاف ورزی کی

اور منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یعنی اپنی بہو سے شادی کو جائز قرار دے دیا۔بلیک کی اس تقریر کے دوران پروفیسر باری خاموش رہا‘ بلکہ مسکراتا رہا‘ البتہ آخری الزامی جمولوں پر وہ اپنے چہرے پر ناگواری کے تاثرات کو نہ چھپا سکا۔ بلیک کی بات مکمل ہوئی تو وہ بولا: مسٹر بلیک لگتا ہے کہ تم نے کسی کتاب میں وہ ساری روایات پڑ ھ لیں ہین جن میں مخالفین کے اس طرح تبصرے مل جاتے ہیں کہ یہ شادی حضورؐ کی خواہش پر ہوئی تھی لیکن شاید تمہیں معلوم نہیں

کہ اس واقعے کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے ‘ کیاتم نے قرآن مجید کا بیان پڑھا ہے؟‘ہاں! زینبؓ سے شادی کرنے کے بعد محمدؐ نے کہا کہ مجھ پر وحی اتری ہے کہ وہ مردوں میں سے کی کے باپ نہیں بلکہ اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ کہ منہ بولے یعنی متبنیٰ بیٹوں کی مطلقہ سے شادی کرنا کوئی برائی نہیں بلکہ جائز ہے‘ کیا اس کے علاوہ اس واقعے کے متعلق تمہیں کوئی اور تفصیلات نہیں ملیں؟پروفیسر کا لہجہ اب بالکل سپاٹ تھا۔ بلیک بولا: اور بھی ہین لیکن اس سب سے کیا فرق پڑتا ہے ‘

محمدؐ نے دعویٰ کر دیا کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے کہ اس نے جو کای ہے درست کیا ہے ! اس لیے میں قرآن کے بجائے ان بیانات کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں‘ جو اس زمانے کے لوگوں نے دیئے ہین اور ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شادی محمدؐ کی خواہش پر ہوئی۔پروفیسر باری سمجھ گیا کہ پروفیسر بلیک کی ہر بات کو اللہ کے بجائے محمدؐ کی نعوذ باللہ گھڑی ہوئی بات قرار دے گا۔ اسلیے اس کا منہ بند کرنے کے لیے اسے کسی اور طریقے سے سمجھانا پڑے گا۔

اس نے کچھ لمحوں کے بعد توقف کے بعد کہا۔ ’’مسٹر بلیک تم نے یہ بات کی ہے کہ سیدہ زینبؓ سے زید بن حارثؓکا نکاح خود حضورؐ کی خواہش پر ہوا تھا ’’ہاں بالکل‘‘ بلیک نے تصدیق کی تو باری فوراً بولا ’’ اگر حضور اکرمؐ زینبؓ سے خود شادی کرنا چاہتے تھے تو پہلے حضرت زیدؓ کا ان سے بیاہ کیوں کر دیا تھا ؟اس سے قبل بلیک اس اہم اعتراض کا جواب دیتا ‘پروفیسر باری نے ایک سوال اور داغا‘مسٹر بلیک ‘جہاں تم نے حضورؐ کو الزام دینے والی یہ جھوٹی اور موضوع روایات پڑھیں ‘

وہاں یہ بھی لکھا ہو گاکہ حضرت زیدؓ اور سیدہ زینبؓ کی شادی پر خالصتاً حضورؐ کی خواہش پر ہوئی تھی۔ نہ سیدہ زیدؓ سے شادی رضامند تھی اور نہ زیدؓ کے کبھی حاشیہ خیال میں تھا کہ وہ آزاد کردہ غلام ہو کر قریش کے سب سے اونچے خاندان کی ایک معزز خاتون سے شادی کر سکیں گے‘ ان روایتوں میں تم نے ضرور پڑھا ہو گا کہ حضورؐ دونوں مجبور کیا کہ یہ شادی کریں‘ بلیک کے لیے صورت حال ایک دم بدل گئی تھی اس کی ساری کی ساری تیاری پہلے مکالمے میں ہی دھری کی دھری رہ گئی تھی‘

وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پروفیسر باری نے ان خرافات اور داہی روایات کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہو گا‘ جس کو کسی معتبر اور ثقہ مفسر اور محدث نے قبول نہیں کیا‘ اس کا خیال تھا پروفیسر باری نے دشمنوں کی یہ باتیں بالکل نہیں پڑھی ہونگی اور وہ عام مسلمانوں کی طرح میٹھی اور مثبت باتیں جانتاہو گالیکن وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ باری نے جن حقائق کا ذکر کیا ہے وہ بالکل درست ہیں اور اس تاریخی حقیقت کو حضورؐ کے مخالفین بھی مانتے ہیں

کہ یہ شادی سر سر حضورؐ کی ذاتی خواہش پر ہوئی تھی اور اگر حقیقت یہی تھی تو پھر اس اعتراض کا واقعی کوئی جواب نہ تھا کہ حضورؐ اگر زینبؓسے نکاح کے خواہش مند تھے تو پہلے ہی کر لیتے‘ سیدہ زینبؓکو منہ بولے بیٹے سے بیاہ کر پھر اس سے طلاق دلا کر شادی کر کے انہوں نے مخالفین کی مخالفت کا خطرہ مول لینے کا فیصلہ آخرکیوں کیا؟بلیک کو اور تو کچھ نہ سوجھا ‘کہنے لگا تو پھر تہم ہی بتاؤ کہ انہوں نے یہ نکاح جس سے ان کے مخالفین کو بھر پور پروپیگنڈے کا موقعہ ملا ‘

کیوں کیا ؟ہاں یہ سوال اس ذہن میں ضرور پیدا ہو سکتا ہے جو قرآن کی بجائے یکطرفہ روایات ہی کی روشنی میں اس واقعہ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اصل واقعہ بالکل مختلف ہے ‘ مگر تم تو گندی مکھی کی طرح اس جگہ بیٹھ گئے جہاں تمہیں غلاظت ملی کیوں کہ تمہارے پیش نظر تو صرف اعتراض کرنا ہے ‘ الزام دھرنا ہے ‘ غلطی اور خامی نکالنا ہے ‘ اگر تم واقعی اس واقعے کو سمجھناچاہتے ہو تو میں اصل بات بتانے کو تیار ہوں‘ بلیک پہلے ہی سوچ رہا تھا

کہ اس سے بڑی غلطی ہوئی کہ اس نے خود بات کا آغاز کیا اسے کرنا یہ چاہیے تھا کہ خود سوال کر کے پروفیسر باری سے اس واقعے کی تفصیلات معلوم کرتاپھر اس کے بیان میں تضاد اور اعراضات کو بنیاد بنا کر اپنی بات کرتا‘ لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ ‘ اس نے اس موقعے کو غنمت سمجھا اور باری کی بات سن کر راضمند ہو گیا تب پروفیسر باری بولے ’’پروفسیر بلیک‘ تہمیں معلوم ہو گا کہ زیدؓ حضورؐ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حزام کے غلام تھے

اور انہوں نے اسے حضرت خدیجہؓ کی خدمت کے لیے ان کے حوالے کر دیا تھا‘ لیکن زیدؓ اپنی خوبصورت طبیعت کے باعث حضورؐ کواس قدر پسند آئے کہ آپ نے انہیں اپنی خدمت کے لیے سیدہ خدیجہؓ سے مانگ لیا‘ مگر کچھ برسوں کے بعد جب وہ ابھی چودہ ‘پندرہ برس کے نوجوان تھے‘ ان کے والد ان کو تلاش کرتے ہوئے حضورؐ کے گھر پہنچ گئے۔ دراصل انہیں بچپن میں ڈاکوؤں نے اغوا کر کے غلام بنا کر بیچ دیا تھالیکن زیدؓ رحمت العالمینؐ سے اس قدر مانوس ہو چکے تھے

کہ انہوں نے اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا‘ اور حضورؐ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی‘اس پر حضور ؐ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اسی وقت کعبہ میں جا کر زیدؓ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنانے کا اعلان کر دیا‘ یہ واقعہ حضورؐ کے رسول بننے سے پہلے کا ہے۔ اس پس منظر کی وجہ سے حضورؐ زیدؓ بہت محبت کرتے تھے اس لیے ان کی خواہش تھی کہ زیدؓ ان کے خاندان کا حصہ بن جائیں‘ اتنا ہی معزز اور باوقار سمجھیں جائیں‘جتنا کے قریش کے لوگ اپنے آ پ کو سمجھتے تھے۔

پھر غلام اور آزاد کردہ غلاموں کی معاشرتی حیثیت کو بلند کرنے اور ان میں اور عام لوگوں میں مساوات پیدا کرنے کے لیے بھی انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ زیدؓ کی شادی اونچے درجے کی کسی خاتون سے ہونی چاہیے‘بلاشبہ حضورؐ کا یہ فیصلہ ایک انقلابی فیصلہ تھا لیکن اس وقت کے معاشرے کے لیے دوسری باتوں کی طرح اسے ہضم کرنا بھی مشکل تھا‘حتی کہ سیدہ زینبؓ بھی اس شادی کے لیے اولاً رضا مند نہ تھیں وہ لوگوں کی باتوں اور طعنوں سے خوفزدہ تھیں

کہ وہ کیا کہیں گے کہ اس کی شادی ایک آزاد کردہ غلام سے ہو رہی ہے لیکن جب حضورؐ نے ان کے سامنے اعلیٰ ترین مقصد کا ذکر کیا وہ رضامند ہو گئیں۔ حضرت زیدؓ کے سامنے جب حضورؐ نے سیدہ زینبؓکا ذکر کیا تو سخت حیران ہوئے اور انہوں نے اس خدشے کا بھرپور اظہار کیا کہ زینبؓانہیں دل سے قبول نہیں کریں گی کیونکہ روایتی لحاظ سے یہ ایک بے جوڑ شادی ہے۔ حضورؐ نے انہیں تسلی دی کہ ایسا نہیں ہو گابلکہ اس سے اسلام کے تصور مساوات اور غلاموں اور

آزاد کردہ غلاموں کے حالات بہتر بنانے کے لیے ایک روشن مثال قائم ہو گی۔ چنانچہ یہ شادی ہو گئی مگر حضرت زیدؓ اپنے اندر آزاد کردہ غلام ہونے کے احساس کو ختم نہ کر سکے اور اس کی وجہ سے جلد ہی وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ ان کی بیوی انہیں کمتر جانتی ہے۔ یوں میاں بیوی میں فاصلے بڑھنے لگے۔ بات یہاں تک پہنچی کے حضرت زیدؓنے طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ حضورؐ کے پاس آئے اور سارا معاملہ سامنے رکھا۔ حضورؐ نے انہیں بھی سمجھایا‘

اور سیدہ زینبؓکو بھی کہ ان کی شادی سر سر ان خواہش پر ہوئی ہے اور اس کے پیچھے ایک عظیم مقصد ہے‘اس لیے اسے انہیں ہر صور ت میں نبھانا چاہیے مگر بات سنوارنے کی بجائے بگڑتی گئی حتی کہ ایک موقعہ پر حضرت زیدؓ نے حضورؐ سے پوچھا کہ آپ مجھے طلاق نہ دینے کا مشورہ بطور نبی حکم کے طور پر دے رہے ہیں یا ایک بزرگ ہونے کی حیثیت سے ؟ دراصل حضرت زیدؓ واضح طور پر جاننا چاہتے تھے کہ کہیں وہ طلاق دے کر ایک گناہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔

لیکن حضورؐ نے تسلیم کیا کہ طلاق نہ دینے کا مشورہ اللہ کے حکم سے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت سے دے رہے ہیں۔حضورؐ اس لیے بھی زیدؓ کو طلاق دینے سے باز رہنے کا کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ وہی کہ ذریعہ ان پر واضح کر دیا تھا کہ اگر زیدؓ نے سیدہ زینبؓ کو طلاق دے دی تو انہیں سیدہ سے نکاح کرنا ہو گااور حضورؐ جانتے تھے کہ اس نکاح کے خلاف مخالفین اسلام ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیں گے اور طرح طرح کی الزام تراشیاں اور باتیں بنائیں گے۔ اس لیے آپ کی شدید خواہش تھی

کہ زیدؓ طلاق نہ دیں تا کہ سیدہ سے ان کے نکاح کی نوبت ہی نہ آئے لیکن حضرت زیدؓ نے یہ واضح ہونے کے بعد کہ ان کا طلاق دینا گناہ نہیں ہو گا‘ سیدہ زینبؓ طلاق دے دی۔ اب اللہ کے حکم کے مطابق حضورؐ کو سیدہ زینبؓ سے نکاح کرنا پڑا۔چنانچہ جب یہ نکاح ہوا تو حضورؐ کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ مخالفین نے وہ بکواس کرنا شروع کر دی جو پروفیسر بلیک ‘ تم نے روایات میں پڑھی ہے‘ لیکن یہ ساری باتیں جیسا کہ تم خود تسلیم کر چکے ہو‘مخالفین اسلام اور دشمنان پیغمبر کی تھیں۔

ان میں سے ایک بات بھی کسی ثقہ اور حالات سے با خبر شخص نے نہیں کی۔ پھر قرآن نے وہ معجزاتی آیات نازل کیں جن سے ان بدبخت اور بدنیت لوگوں کے منہ کو چھپ لگ گئی‘یہ ایسی ہی چپ تھی جیسی قرآن کی تردید سے سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر الزام لگانے والوں کو لگیں تھیں۔پروفیسر بلیک جو پروفیسر باری کو بڑے انماک سے سن رہا تھا اب اور زیادہ متوجہ ہو گیا۔ پروفیسر باری نے ہاتھ میں قرآن مجید پکڑرکھا تھا اور متن کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمعہ کیئے جارہے تھے۔

یہ سورۃ احزاب کی آیات تھیں :’’اور (اے رسول ) جب اس شخص سے جس پر اللہ نے احسان کیا اور آپ نے بھی احسان کیا‘(حضرت زیدؓ) یہ کہہ رہے تھے اپنی بیوی اپنی زوجیت میں رہنے دو اور (اسے طلاق دینے کے معاملے میں )اللہ سے ڈرواور ( اے رسولؐ) آپ اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے‘ جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔آپ لوگوں ( کہ طعن) سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ ہی اس بات کا حق دار ہے کہ آپ اس سے ڈریں‘ اور پھر حضرت زیدؓ نے (طلاق دے کر )ان سے اپنی زوجیت ختم کر دی

تو ہم نے آپ ؐ ان کا نکاح کرا دیا تاکہ مومنین پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان کو طلاق دے کر ان سے اپنا تعلق حتمی طور ختم کر چکے ہوں‘اور اللہ کا حکم تو ہو کر رہنا تھا‘ اور نبی کے لیے اللہ نے جو کچھ فرض کیا ‘ اس میں کوئی تنگی نہیں ہے ۔جو نبی پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی اللہ کا دستور یہی رہا ہے اور اللہ کے فیصلے کے لیے ایک وقت مقرر تھا۔ ‘‘ ( احزاب 37,38)آیات کا ترجمعہ سنا کر پروفیسر باری نے بلیک کی طرف دیکھا۔

اس کے چہرے کا رنگ بدل چکا تھا پروفیسر باری نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ مسٹر بلیک‘ آپ کے خیال میں قرآن کے ان الفاظ سے کیا مراد ہے کہ حضورؐ اپنے دل میں اس بات کو چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا؟‘‘بلیک بولا: ’’اس پس منظر میں‘ جو آپ نے بتایا ہے‘ ظاہر ہے یہی ہو سکتا ہے محمدؐ اس بات کو چھپا رہے تھے کہ انہیں طلاق کی صورت میں زینبؓ سے شادی کرنے کا حکم مل چکا ہے اور اللہ متبنیٰ بیٹوں کی مطلقہ سے نکاح کے عمل کو ان کی قائم کردہ مثال

سے جائز قرار دینے کو ظاہر کرنے والا تھا ‘‘’’اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کہو کہ قرآن اگر نعوذ باللہ محمدؐ کی تصنیف ہوتی تو وہ اپنے بارے میں کیا یہ جملہ لکھ سکتے تھے‘آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ ہی اس بات کا حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے‘‘ظاہر ہے اس بات کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ کبھی نہیں۔ لیکن بلیک یہ کہہ کر اپنی ہار تسلیم نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ بڑے دعوے اور چیلنج سے خود پروفیسر باری کو للکار نے میدا ن میں اترا تھا۔

وہ زیادہ سے زیادہ الزامی قسم کے جواب دے سکتا تھا کہ محمدؐ نے نعوذباللہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے اپنے خلاف یہ باتلکھ لی ہو گی لیکن یہ بات کر کے اپنے آپ کو بالکل ہی گدھا ثابت نہیں کرسکتا تھا ۔ کیونکہ جس ہستی نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو وہ اپنے خلاف ایسی بات کبھی نہیں کر سکتا‘ لہٰذا وہ چپ رہا۔ اس کی طرف سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو پروفیسر باری دوبارہ کہنے لگے اور مسٹر بلیک‘ اس متذکرہ آیت کی حوالے سے میں تمہیں ایک دلچسپ روایت سناتا ہوں۔

یہ روایت تمام محدثین کے نزدیک بالکل درست اور ثابت شدہ ہے۔ روایت یہ ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضورؐ نے مجھ سے کہا کہ اگر میں قرآن کی کسی بات کو چھپانے پر قادر ہوتا تو اس بات کو چھپاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا حضورؐ کے متعلق یہ تبصرہ خود آپ کو کتنا بھاری محسوس ہوا تھا لیکن آپ کو وہی کہ ہر اس لفظ کو امت کے سامنے لانے کے پابند تھے جو قرآن کی شکل میں آپ پر نازل ہورہا تھا۔پروفیسر باری کی اس بات نے تو گویا بلیک کے ہونٹ ہی سی دیئے۔

اس کا ذہن اگرچہ تیزی سے کام کررہا تھا لیکن اس ساری تفصیل میں اسے کوئی خلا نظر نہیں آرہا تھا واقعہ کی ہر چول اپنی جگہ بیٹھ رہی تھی بلکہ اس طرح جیسے کسی لکھے ہوئے کاغذ کو غلط فہمی سے پھاڑ دیا گیا ہو اور پھر اس کا ایک ایک ٹکڑا اکٹھا کیا گیا ہواور اسے جوڑ دیا گیا ہو‘ اور تحریر ایک بامعنی عبارات بن کر اس بات کی تصدیق کر رہی ہوکہ پھٹا ہوا صفحہ بالکل اصل حالت میں دستیاب ہو گیا ہے ۔ اس کے بالکل برعکس واقعے کی تفصیل جو اس کے ذہن میں تھی

اور جس کی بنیاد پر اس نے پروفیسر باری کو للکارا تھا ‘اس کی کوئی کل سیدھی نہیں تھی اس پر ان گنت سوال اٹھتے تھے ‘ جس میں وہ پہلے ہی سوال پر چت ہو گیا ۔بڑی سوچ بچار کے بعد اس کے ذہن میں بس ایک بات آئی اور وہ بولا’’مسٹر باری ‘ کیا یہ ساری تفصیل تم نے بتائی ہے ‘ تمہاری اپنی تحقیق ہے یا تم سے پہلے بھی کسی نے اس واقعے کو اس رنگ میں لیا ہے؟‘‘پروفیسر باری مسکرائے اور کہنے لگے‘ تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قرآن کے سب سے پہلے

مفسر ابن جریر طبری نے اپنی تفصیل میں اس واقعے کو اسی طرح بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ قرآن کی ان آیات کی یہ یہی تفسیر سب سے زیادہ صحیح اور قرآن کے مدآکے عین مطابق ہے اور الزامی مفہوم کی تردید کی ہے کہ نعوذ باللہ آپؐ خود سیدہ زینبؓ سے نکاح کے خواہش مند تھے‘‘۔اس انکشاف نے گویا پروفیسر بلیک کے اس الزام کے طابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جس کا سہارا لے کر وہ اللہ کے آخری رسولؐ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے نکلا تھا ۔ لیکن اسے کیا خبر تھی

کہ چاند پر تھوکا ہمیشہ منہ پر ہی آتا ہے ۔ اسے کیا خبر تھی کہ سورۃ احزاب حضورؐ کی ذاتی اور خانگی زندگی کے ایسے واقعات اور معجزات سے بھری پڑی ہے اسے کیا خبر تھی کہ خود سیدہ زینبؓ اپنے اس نکاح پر کس قدر رشک کر تی تھی اور فرمایا کرتی تھی میری شادی تو ایسی شادی ہے جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی کیونکہ میرا نکاح خود اللہ نے پڑھایا ہے ‘ اور اسے کیا خبر تھی کہ محمدؐ نے سارے جہاں کی باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ‘ آخری پیغمبر ہونے کے ناطے ‘

امت کو آخری شریعت دینے کی خاطر ‘ سیدہ زینبؓ سے نکاح کر لیا۔ تو قرآن نے ان کی وہ تعریف کی جس کی مثال ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر شاید کسی کے ہاں نہیں ملتی ۔ اللہ نے قیامت تک زندہ سلامت اور محفوظ رہنے والی کتاب میں یہ اعلان کر دیا’’ بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی ؐ پر رحمت بھیجتے ہیں‘ ایمان والوں ‘ تم بھی ان پر اچھی طرح درود و سلام بھیجو‘ بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ۔ اللہ نے ان پر دنیا

اور آخرت دونوں میں لعنت کی اور ان کے لیے اس میں رسوا کن عذاب تیار کررکھا ہے ۔ ‘‘(احزاب :56,57)پروفیسر عثمان باری کی ساری باتیں بلیک کو کہہ کر اٹھ گئے اور وہ اپنے ضمیر کی عدالت کا سامنا کر رہا تھا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرپٹوکرنسی


وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…