تحریر:اعجاز پیارا
یورپی ممالک میں مقیم امیگرنٹس کی نقل وحمل کنٹرول کرنے کے لیے یورپین یونین اپنے قوانین میں سختی لا رہی ہے مختلف ائیرپورٹس پر انہیں روکنے اور بعض صورت حال میں ڈی پورٹ کر دئیے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے برطانیہ اور یورپ کے امیگریشن قوانین میں مزید سختیاں لائی گئی ہیں جن کے تحت رشتہ داروں کی امیگریشن مشکل سے مشکل ترین بنادی گئی ہے 28اپریل کو فرانس ایمبیسی کی طرف سے پی آئی اے کو لکھا جانے والا ہدایت نامہ اس سلسلہ کی پہلی کڑی ہے کہ جو امیگرنٹس اٹلی سے پاکستان آتے ہیں اب پہلے کی طرح کئی سال پاکستان میں آرام نہیں فرما سکتے ۔یورپ میں صورت حال اب بالکل تبدیل ہو چکی ہے یورپ میں مقیم تمام پاکستانیوں کو اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کیونکہ اس صورت حال میں صرف اٹلی ہی ظالم کا کردار نہیں ادا کر رہا بلکہ یورپین یونین کے برسلز میں ہونے والے مورخہ 19مئی کی میٹنگ کے دوران یہ تجویزسامنے آئی ہے کہ ایک ایسا قانون لایا جائے جس کے تحت ایسے تمام ممالک جن کے شہری بغیر ویزہ کے یورپ گھومنے آسکتے ہیں ان کے ساتھ یورپین یونین کے ممالک کو اختیار ہو کہ وہ ایسے معاہدے کو کسی بھی وقت معطل کر دیں۔
یورپین ممالک نے البانیہ سے لیکر پیرو تک بہت سے ممالک سے ایسے معاہدہ کئے ہوئے ہیں جن کے تحت ان کے شہری بغیر ویزہ کے شینگن ایریا میں سیر کے لئے آسکتے ہیں مستقبل قریب میں ایسے معاہدے یوکرائن ، کوسوو ،جورجیا اور ترکی سے بھی ہونے والے ہیں لیکن یورپ کے 28ممالک کے وزرائے خارجہ ان ممالک کے شہریوں کی آزادانہ آمدورفت کو یورپ کے مستقبل کے لئے خطرہ قرار دے رہے ہیں اس لئے وہ گزشتہ مہینے برسلز میں ہونے والی میٹنگ میں اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ اگر ایسے کسی بھی معاہدہ میں انہیں کبھی بھی خطرے کی بو محسوس ہو جس کے تحت ان معاہدوں کا غلط استعمال ہورہا ہے تو انہیں یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ یہ معاہدے فوری طور پر معطل کر سکیں گے یورپین یونین کے کمیشن نے جس قانون کا مسودہ پیش کیا ہے اس کے تحت اگر ایسے ممالک سے یورپ آنے والے شہری محدود مدت سے زیادہ رہیں گے یا اس دوران ان میں سے کچھ لوگ سیاسی پناہ کی درخواست دیں گے تو ایسے معاہدے توڑ دئیے جائیں گے اس کے علاوہ اگر ان شہریوں کی وجہ سے یورپین ممالک میں جرائم کی شرح بڑھ گئی یا دہشت گردی کا خطرہ ہوا تو بھی ان ممالک کے ساتھ معاہدے ختم کر دئیے جائیں گے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ میں نے جن ممالک کے نام اوپر لکھے ہیں یا جن کے ساتھ مستقبل میں معاہدے ہونے جارہے ہیں ان میں مسلمانوں کی کثیر تعدادآباد ہے ؟کیا ایسی تمام قانونی سختیوں کا تعلق یورپ میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی لہرسے تو نہیں ؟گزشتہ چند مہینوں میں اٹلی نے تقریباً 67ایسے غیرملکیوں کے نوجوان بچوں کو ڈی پورٹ کیا ہے جو سوشل میڈیا یعنی فیس بک وغیرہ پر داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت میں پوسٹ لگا رہے تھے انہیں وزارت داخلہ کی خاص ہدایت پر ملک بدر کیا گیا ہے ان پر نہ تو کسی جرم میں ملوث ہونے کا کوئی قانونی ثبوت تھا اور نہ ہی ایسی کسی سرگرمی میں وہ مطلوب تھے انہیں ’’احتیاطی تدابیر ‘‘ کے طور پر ملک بدر کیا گیا ہے اور اس آپریشن کو اٹلی کی وزارت داخلہ کی جانب سے
’’ پرہیز‘‘کا عنوان دیا گیا۔
انہی ملک بدر کئے جانے والوں میں ایک پاکستانی فیملی کا بھی بچہ ہے جس کو اس وجہ سے ملک بدر کیا گیا کہ اس نے فیس بک کے اپنی کور فوٹو میں داعش کا سیاہ پرچم لگایا ہوا تھا ایک عربی شہری کو اس وجہ سے ڈی پورٹ کیا گیا کہ ا س نے فرانس میں ہونے والے دھماکوں کے بعد ان دہشت گردوں کی تعریف کی تھی انہیں نہ تو کسی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی انہیں ڈی پورٹ کرنے کی کانوں کان خبر کسی کو ہونے دی گئی ہمارے لوگوں کا عالم یہ ہے کہ ہمیں یورپ کے مالی فوائد تو عزیز ہیں اور انہی کی بنا پر ہم ان ممالک میں رہائش رکھنا چاہتے ہیں لیکن نظریاتی طور پر ہم ان لوگوں کو اپنا ہیرو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں جو دنیا کو جہنم بنا رہے ہیں ہمیں اس سے کوئی سروکا ر نہیں ہو سکتا ہے وہ کسی عالمی سازش کا آلہ کار ہی نہ ہوں۔
بدلتے ہوئے عالمی حالات کو سمجھنا چاہیے جب پیرس اوربلجیم میں دہشت گرد حملے ہوئے تو پاکستانی کمیونٹی نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور ان حملوں کی مذمت کی۔ تو بعض لوگوں نے اس مذمت پر برا منایا ۔میرا ن لوگوں سے سوال ہے کہ ایک شخص نے پاکستان کی شہریت چھوڑ کر اٹلی ،فرانس،بلجیم یا جرمنی کی شہریت حاصل کر لی ہے اس نے اس ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ اب اس شخص کو کس ملک کے ساتھ وفادار ہونا چاہیے؟ اور اس شخص کا فلیگ کون سا ہے؟جن پاکستانیوں نے بہتر مستقبل کی خاطر یورپ کیلئے ہجرت کی وہ وہاں کے شہری بن گئے وہ اس معاشرے میں ہی ضم ہو کر پاکستان کی بہترخدمت کر سکتے ہیں۔آپ حالیہ لندن کے مئیر کی مثال دیکھیں صادق خان کے مئیر منتخب ہونے سے نہ صر ف مسلمانوں کا بلکہ پاکستان کا بھی امیج بہتر ہوا ہے۔یہ ممکن نہیں رہیں تو یورپین معاشرے میں مالی مفاد بھی وہاں سے حاصل کریں لیکن وفاری کسی اور کے ساتھ ہو۔بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔امیگرینٹس کیلئے قانون میں جو نرمیاں تھیں یا یورپ کے قانون میں جو خامیاں تھیں ان کو آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے۔ جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں اس کے ساتھ عملی طورپر وفاداری کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ ملک ہمیں سیکیورٹی رسک نہ سمجھے ۔اٹلی میں بیروزگاری بہت زیادہ ہے۔ مجبوری کی وجہ سے لوگوں نے اپنی فیملیز پاکستان میں شفٹ کر دی تھیں ۔ ایک دَم اوورسٹے کا قانون آجانا یقیناًپاکستانی کمیونٹی کیلئے بہت بڑا شاک ہے۔ ایسے کئی شاکس کیلئے ہمیں تیار رہنا چاہیے ۔ خود کو ڈسپلن میں لانے کی ضرورت ہے۔ دنیا اب گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ گلوبل ویلج میں امن ہر شخص کی ضرورت ہے۔ ہم دوسرے کیلئے بہتر سوچیں گے توہمیں بھی بہتری ملے گی۔ دہشت گردی جہاں بھی ہو اور دہشت گردی جس کے ساتھ بھی ہو اس کی مذمت ہونی چاہیے۔ اور انصاف کے تقاضے پورے کر کے ہی عالمی امن لایا جاسکتا ہے۔
یورپ کی فضاؤں سے یورپ میں آزادانہ نقل و حمل پر پابندی

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں