پیر‬‮ ، 23 جون‬‮ 2025 

رمضان کیسے گزاریں ؟

datetime 5  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

دنیا میں انسان یوں تو بہت ہیں لیکن ان سب سے بلند مرتبہ و مقام انبیائے کرام علیہم السلام کو حاصل ہے۔ شہر توبہت سے ہیں لیکن تمام شہروں میں مقدس شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں۔ مہینے بھی بہت سے ہیں لیکن رمضان کا مہینہ سب سے زیادہ بابرکت اور فضیلت کا حامل ہے۔

’تمہارا رب فرماتا ہے: روزہ تو میرے ہی لیے ہے
اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
آئیے! سب سے پہلے رمضان کا حقیقی تعارف خود صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنتے ہیں:حضرت سلمان فارسیؓ کی روایت کے مطابق شعبان کی آخری تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔ اس میں آپ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے‘اس مبارک مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے‘ اس مہینے کے روزے اللہ نے فرض کیے ہیں‘ اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے کو عبادت مقرر کیا ہے جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی نفل عبادت کرے گا تو اسے دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا اجر ملے گا‘اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ہو گا‘ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے‘یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے‘ جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو افطار کروایا‘ یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت، آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے اور اس روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزے دار کے ثواب میں کمی کی جائے۔‘‘
عرض کیا گیا: ’’یارسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کروانے کا سامان میسر نہیں ہوتا۔‘‘ اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی یا صرف پانی ہی کے گھونٹ کے ذریعے کسی روزے دار کو افطار کروادے۔ جو کوئی کسی روزے دار کو پورا کھانا کھلادے‘ اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض یعنی حوضِ کوثر سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اسے کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ماہ کا ابتدائی حصہ رحمت‘ درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتشِ دوزخ سے آزادی کا ہے۔‘‘ بعد ازاں آپ نے فرمایا: ’’جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام‘ ملازم اور خادم کے کاموں میں تخفیف اور کمی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔‘‘ اس میں اللہ کی طرف سے فرشتے آواز لگاتے ہیں: ’’اے بدی اور برائی کرنے والے تو رُک جا! اے نیکی کے طالب تو اس میں مزید طلب پیدا کر! جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو عرش سے ایک ہوا چلتی ہے جس کے جھونکوں کی وجہ سے جنت کے درختوں کے پتے اور کواڑوں کے حلقے تک بجنے لگتے ہیں۔‘‘

روزے کی نیت اور دُعائیں
روزے کی نیت زبان سے کرنا ضروری نہیں بلکہ دل کے ارادے کا نام نیت ہے۔ (تسہیل بہشتی زیور‘ ص:424)
تاہم بعض حضرات نے زبان سے کہنے کے لیے درج ذیل دُعا بتائی: ’’وَبِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ‘‘ ’’میں رمضان کے مہینے کے روزے کی نیت کرتا ہوں۔‘‘
افطار کی دعا: ’’اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ.‘‘ ’’اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے دیے ہوئے رزق سے کھولتا ہوں۔‘‘
حکم ہے ’’رمضان کی تیاری شعبان ہی سے کرو۔‘‘ بدقسمتی سے ہمارے تاجر اور دکان دار اسی فارمولے اور سنہری اُصول پر عمل کرتے ہوئے رمضان کی آمد سے قبل اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کردیتے ہیں جبکہ رمضان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیزیں ذخیرہ اندوز ذخیرہ کرکے مارکیٹ سے غائب کرنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ واضح حدیث ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کتنا بُرا ہے اشیائے ضروریہ کو روک لینے والا آدمی۔ اگر اللہ چیزوں کے نرخ کو سستا کرتا ہے تو اسے غم ہوتا ہے اور جب قیمتیں چڑھ جاتیں ہیں تو خوش ہوتا ہے۔ (مشکوٰۃ)۔اندازہ کریں یہ عام دنوں کی بات ہے‘ اگر رمضان کے مقدس مہینے میں ایسا کیا جائے تو اس شخص کے بارے میں کیا کہا جائے؟ لہٰذا غریب عوام کو چاہیے کہ چینی‘ آٹا‘ دال‘ چنے‘ بیسن‘ تیل اور پھل وغیرہ کا بندوبست پہلے سے ہی کرلیا کریں کیونکہ رمضان میں مزید قیمتیں بڑھ جانے کا قوی اندیشہ بلکہ سوفیصد یقین ہوتا ہے۔
روزہ کیا ہے؟
روزے کے ذریعے ایک خاص مدت تک اور خاص وقت تک انسان کو اس کے جائز بشری تقاضوں پر پابندی عائد کرکے اس کی قوت حیوانی کو اللہ کے احکام اور ایمانی و روحانی تقاضوں کا پابند بنانا مقصود ہے۔ جب روزے کے ذریعے انسان اس کا عادی ہوجائے گا تو زندگی کے ہر موقع پر اپنے جذبات و نفسانی خواہشات کی اتباع کے بجائے اللہ تعالیٰ کی مرضی پر چلنا آسان ہوجائے گا۔
روزے کی عبادت کو اللہ نے اپنی ذات کے ساتھ مختص کیا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے: ’’تمہارا رب فرماتا ہے: روزہ تو میرے ہی لیے ہے اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘ ظاہر ہے جب انعام دینے والی ذات احکم الحاکمین ہے تو انعام بھی اسی کے شایانِ شان ہوگا۔
روزہ دراصل باقاعدہ نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات پوری کرنے سے رُک جانے کا نام ہے۔ اس کا فائدہ کیا ہے؟ ویسے تو اس کے بہت سے فوائد ہیں لیکن چند بیان کیے دیتا ہوں۔ انسان روزے میں نفسانی خواہشات اور شیطانی جذبات پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے۔ انسان میں صبر‘ غریب پروری اور عزم و استقلال کے جذبات جنم لیتے ہیں۔رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے۔دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اورتیسرا عشرہ نارِ جہنم سے نجات کا ہے۔
روزہ اور جدید سائنس
اسلام نے روزہ کو مؤمن کے لیے شفا قرار دیا ہے‘ اس ضمن میں سائنس کس تجربے تک پہنچی ہے؟ اس کے لیے دو واقعات ملاحظہ فرمائیے:
۔۔۔مجھے ایک امریکی شخص ملا۔ کہنے لگا: میں بھی مسلمانوں کی طرح روزہ رکھتا ہوں۔ میں نے کہا: آپ تو غیر مسلم ہیں‘ پھر یہ روزے کا تکلف کیسا؟ کہنے لگا: سائنسی تحقیق سے ثابت ہوا ہے سال میں کچھ وقت انسان کو ایسا گزارنا چاہیے کہ وہ ’’ڈائٹنگ‘‘ کرکے اپنے نظام ہضم کو کچھ عرصہ فارغ رکھے۔ اس سے انسان کے اندر موجود رطوبتیں جو وقت کے ساتھ ساتھ زہر میں تبدیل ہوجاتی ہیں‘ روزے کے ذریعے ختم ہوجاتی ہیں۔ ان خطرناک رطوبتوں کے ختم ہونے سے بہت سے پیچیدہ امراض کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ یوں نظام ہضم پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے۔غیر مسلم نے مزید کہا: چنانچہ میں نے اور میری بیوی نے فیصلہ کیا کہ ہر مہینے میں کچھ دن روزہ رکھ کر ’’ڈائٹنگ‘‘ کیا کریں گے۔
۔۔۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے معروف پروفیسر ’’مورپالڈ‘‘ نے اپنا واقعہ بیان کیا۔ کہا: میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا‘ جب میں روزے کے باب پر پہنچا تو چونک پڑا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولا دیا ہے۔ میرا خیال ہے اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا‘ صرف ایک روزے کا فارمولا دیتا تو بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس کوئی اور نعمت نہ ہوتی۔ پھر میں نے اس کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے مسلمانوں کے طرز پر روزے رکھنا شروع کیے۔ میں عرصہ دراز سے معدے کے ورم میں مبتلا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں میں نے محسوس کیا اس میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ میں نے یہ مشق جاری رکھی۔ بیماری میں افاقے کا تناسب اور بھی بڑھتا گیا۔ تھوڑے عرصے میں‘ میں مکمل نارمل ہوچکا تھا۔
ان دو واقعات کے ذریعے صرف اتنی سی دعوتِ فکر دینا پیش نظر ہے کہ ا للہ نے بغیر کسی محنت کے سالہا سال گمراہی میں بھٹکائے بغیر ہمیں وہ ساری نعمتیں یکمشت عطا کردی ہیں تو پھر ہم ایسے پیارے مذہب کو چھوڑ کر غیر کی گندگی کی طرف للچائی نظروں سے کیوں دیکھیں؟
ماہرین جسمانی امراض نے صرف روزے کے ذریعے افاقہ پذیر ہونے والی بیماریوں کی ایک طویل فہرست ذکر کی ہے۔ ذیل میں ہم چند کا ذکر کرتے ہیں۔
*۔۔۔ نظامِ ہضم: انسان کے نظامِ ہضم میں کئی اہم اعضا شریک کار ہیں‘ ان میں منہ‘ جبڑا‘ لعابی غدود‘ زبان‘ گلا‘ مقوی نالی (گلے سے معدے تک خوراک لے جانے والی نالی) معدہ‘ بارہ انگشتی آنت ‘جگر‘ لبلبہ اور آنتوں کے مختلف حصے شامل ہیں۔ جیسے ہی ہم کھانا شروع کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آتا ہے اور ہر عضو اپنا کام شروع کردیتا ہے۔ روزہ اس سارے نظام پر ایک ماہ کا آرام طاری کردیتا ہے۔ اس آرام کا بطور خاص اثر ’’جگر‘‘ پر ظاہر ہوتا ہے کیونکہ جگر کھانا ہضم کرنے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی کرتا ہے۔ بہرکیف! روزہ نظام ہضم کے لیے ہزار نعمت ہے۔
*۔۔۔ دورانِ خون: روزے کی حالت میں خون کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ کمی دل کے عمل کے لیے مفید ہے۔ اسی طرح ’’سیلز‘‘ کے درمیان مائع کی مقدار کی کمی کی وجہ سے پٹھوں پر دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ پٹھوں پر دباؤ یا باالفاظ دیگر ڈائسٹالک دباؤ دل کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
*۔۔۔ روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں پر پڑتا ہے‘ یہ خلیوں کے اندر سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم رکھنے میں بڑے معاون ہیں۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ’’ایپی تھلیل سیل‘‘ کہتے ہیں‘ جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمے دار ہوتے ہیں‘ ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔
*۔۔۔اعصابی نظام: روزے میں نروس سسٹم یا اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ عبادت سے حاصل شدہ تسکین ہماری کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہے۔اس ضمن میں ایک وضاحت ناگزیر ہے کہ روزے کے دوران بعض لوگوں میں نمایاں چڑچڑاپن روزہ رکھنے کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس قسم کی صورت حال ان انسانوں کے اندر موجود انانیت کے غلبے یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے تاہم روزہ ہی اس سخت دلی کا بھی علاج ہے۔
*…ان طبی فوائد کا خلاصہ ہم ایک حدیث پاک کے ذریعے نکالنا چاہیں گے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ روزے رکھا کرو‘ صحت مند رہوگے‘‘۔ نبی اکرم نے دنیا بھر کی طبی تحقیقات اور ڈاکٹری تجربات کا حاصل اپنے اس دو لفظی فرمان میں نکال کر رکھ دیا۔ صرف دیر ہے تو ہمارے ایک اقدام کی۔ اللہ کی عبادت اور رسول اللہ کی اطاعت کی طرف صرف ایک قدم بڑھانے کی۔
نمازِ تراویح
’’نمازِ تراویح‘‘ ایک ایسی نفع بخش عبادت ہے جس کے فیوض و برکات کا شمار نہیں۔ االلہ کے نیک بندے نمازِ تراویح کا بڑے خشوع و خضوع سے اہتمام کرتے ہیں تاکہ سنت بھی پوری ہوجائے‘ قربِ الٰہی کی منازل بھی طے ہوتی چلی جائیں۔ نماز تراویح چونکہ سنت مؤکدہ ہے۔ اس لیے مرد و عورت دونوں کے لیے ادا کرنے کا حکم ہے۔ نماز تراویح میں بیس رکعات پڑھی جاتی ہیں۔
20 رکعت تراویح سنتِ مؤکدہ ہے۔ اس سے کم پڑھنے والا سنت کا تارک ہوگا۔ جو عذر ترکِ سنت مؤکدہ کے لیے معتبر ہے‘ وہ اس میں بھی معتبر ہوگا۔۔۔ ورنہ اگر کھڑے ہوکر دشوار ہو تو دشواری کے بقدر بیٹھ کر پڑھ لے۔ (تحفہ رمضان ازحضرت تھانویؒ 94)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ حضرت سائب بن یزیدؓ سے روایت ہے حضرت عمرؓ کے دور میں رمضان میں لوگ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ ابوعبدالرحمن سلمیؒ کہتے ہیں حضرت علیؓ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا۔ ان میں سے ایک شخص کو حکم دیا کہ بیس رکعتیں پڑھایا کرے اور وتر خود پڑھایا کرتے تھے۔
مبارک ساعتوں کو قیمتی بنانے کے چند گُر
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کے کرنے کی تاکید اور فضیلت بیان فرمائی ہے۔ عام دنوں میں بھی ان کا معمول باعث برکت ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرپٹوکرنسی


وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…