یہ ۱۹۸۶ء کی بات ہے‘ جنرل ضیاالحق نے منیر احمد خان کو کام تیز کرنے کااشارہ دے دیا۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ‘ منیر احمد خان طویل عرصے سے صدر کو یہ قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان کوپلوٹونیم سے بھی ایٹم بم بنانا چاہیے۔یہ امر لائق توجہ ہے کہ پاکستان اوائل میں پلوٹونیم کے ذریعے ہی ایٹم بم بنانا چاہتا تھا۔
وجہ یہی کہ پنجاب اور سندھ میں یورینیم کی کانیں دریافت ہو چکی تھیں۔ اسی لیے پاکستان ایسے ایٹمی ری ایکٹر لگانے کی کوشش کرنے لگا جہاں خام یورینیم کو پلوٹونیم میں بدلا جا سکے۔اس سلسلے میں پاکستانی حکومت نے کینیڈا‘ جرمنی اور فرانس سے معاہدے کیے۔ تاہم ۱۹۷۶ء تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورینیم کے ذریعے ایٹم بم بنانے کا منصوبہ شروع کرچکے تھے۔ لہٰذا یورپی طاقتوںکواس خفیہ پاکستانی منصوبے کی بھنک پڑی‘ تو انھوں نے ایٹمی ری ایکٹر دینے کے معاہدے منسوخ کر دیے۔جنرل ضیاالحق برسراقتدار آئے‘ تو انھوں نے بیشتروسائل کا رخ یورینیم ایٹم بم بنانے کی سمت موڑ دیا۔ تاہم پلوٹونیم بم بنانے کا منصوبہ بھی جاری رہا۔بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان پلوٹونیم بم کا منصوبہ ختم کرنا چاہتے تھے۔ تاہم منیر احمد خان کی کوششوں سے وہ زندہ رہا۔دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ منیر احمد خان افزودہ یورینیم سے ایٹم بم بنانے کو مہنگا اور طویل المعیاد منصوبہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔ آخر ڈاکٹر صاحب نے اپنا منصوبہ ایمٹی توانائی کمیشن سے علیحدہ کر دیا