لوچ نیس کی پیدائش کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ دس ہزارسال پہلے جب آخری برفانی دور اپنے اختتام کو پہنچا تو سکاٹ لینڈ کے ساحلوں پر ہائی لینڈز کے قریب ایک گلیشئر اپنی جگہ سے سرکا اور اس کے سرکنے کی وجہ سے وہاں پانی میں ایک چوبیس میل لمبی دراڑ پیدا ہوئی اور یوں اس گلیشئر کے نیچے اتنی جگہ پیدا ہوگئی کہ وہاں لوچ نیس جیسے مونسٹر کے رہنے کی صورت پیدا ہو۔ تاہم تاریخ میں اس مونسٹر کو دیکھنے سے متعلق پہلی روایت 565ء میں سامنے آئی۔یہ واقعہ تب رونما ہوا جب سینٹ کولمبیا نامی ایک بحری جہازایورنیس کے علاقوں کی طرف سفر کررہا تھا کہ اس کی ایک کشتی رسہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے پانی میں گر گئی اور سمندر کی لہروں پر بہتی ہوئی دور نکل گئی۔ کشتی کے تعاقب میں جہاز کو اپنے طے شدہ روٹ سے ہٹ کر سفر کرنا پڑا اور اسی طور یہ اس سمت میں جا نکلا جہاں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں نے ایک پیچیدہ درّہ بنا دیا تھا اور جہاں عام طور پر جہاز نہیں جاتے تھے۔ وہیں سینٹ کولمبیا نامی جہاز کی مڈبھیڑ لوچ نیس سے ہوئی۔ اس جہاز میں عیسائی راہبوں کی ایک ٹولی سفر کر رہی تھی جس کا مقصد ایورنیس میں جا کر عیسائیت کی تبلیغ کرنا تھی۔ جونہی یہ جہاز ایک پہاڑی گھاٹی کے عقب سے چکر کاٹ کر دوسری طرف نکلا‘ اس میں سوار ملاحوں اور راہبوں نے ایک بڑی چٹان جیسی شے کو پانی میں سے ابھرتے ہوئے دیکھااور انہوں نے اس عجیب الخلقت شے کو دیکھ کر شور مچانا شروع کردیا۔ ان کے شور کی آواز سن کر لوچ نیس ان کی جانب متوجہ ہوا اور فوراً ہی پانی میں ڈبکی مار کر غائب ہوگیا۔
جہاز کے مسافر لوچ نیس سے متعلق کہانی لے کر جگہ جگہ پھرے ۔تاہم یہ ملاح ہی نہیں تھے جنہوں نے لوچ نیس کی حقیقت سے آگاہی حاصل کی اور دنیا کو اس کے بارے میں بتایا۔ سکاٹ لینڈ کے ساحلی علاقوں میں رہنے والے ماہی گیر اور دیگر افرادایک مدت سے اس مونسٹر کے وجود سے واقف تھے لیکن وہ اسے کوئی محیرالعقول شے سمجھتے تھے اور اس کے بارے میں کھل کر بات کرنے سے احتراز کرتے تھے۔جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسے ایک منحوس شگون سمجھتے تھے۔