اس بارے میں یونیورسٹی آف ریڈنگ کے پروفیسر روان سٹن کا کہنا ہے ’ایسا لگتا ہے کہ 2014، 2015 اور 2016 کا شمار سب سے گرم ترین سالوں میں ہوگا۔‘برطانیہ کے محکمہ موسمیات پروفیسر ایڈم سکئیف کا کہنا ہے کہ ’عالمی سطح پر زمین کے درجہ حرارت میں ایک ساتھ جتنی تبدیلیاں ہو رہی ہیں اس لحاظ سے ماحولیات کا نظام ایک مرحلے سے گزر رہا ہے۔مستقبل قریب اور بعد میں موسموں کو متاثر کرنے والے دو رجحانات بحر الکاہل میں نظر آئے ہیں۔ ال نینو اوسطاً تقریباً ہر پانچ برس بعد بحرالکاہل میں پانی کے بہاؤ بدلنے سے ہوتا ہے۔ اس سے خشک مقامات پر بارش اور زیادہ بارش کی جگہ خشک موسم لے لیتا ہے۔ ال نینو سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔اس کا ایک اچھا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ کیلیفورنیا میں چار برس کی خشک سالی سے نجات مل جائے۔اس تبدیلی کا دوسرا اثر بحیرہ قطب شمالی کے درجہ حرارت میں تبدیلی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے وہاں شدید ٹھنڈ تھی لیکن اب وہ دھیرے دھیرے گرم ہو رہا ہے جس سے پوری دنیا میں گرمی میں اضافہ ہوگا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھیں حال ہی میں اس بات کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ انسانی اقدامات کس طرح ان دونوں سمندروں میں ماحولیاتی تبدیلیاں لاتے ہیں ۔ لیکن پروفیسر سٹن کا کہنا ہے کہ ’جو بات ہماری سمجھ سے باہر وہ ہے ان دونوں کے درمیان مقابلہ‘۔محققین اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ بحرالکاہل میں ہونے والی تبدیلوں کا مطلب یہ ہے کہ یورپ زیادہ ٹھنڈا ہوگا اور ایک دہائی تک وہاں گرمیوں میں بارش بھی کم ہوگی۔ لیکن یہ سب تب ہی ممکن ہوگا جب بحرالکاہل کی تبدیلیاں قطب شمالی میں ہونے والی تبدیلوں کی نسبت کم اہم نہ ہوں۔
حالیہ تحقیق کے بارے میں برطانوی محکمہ موسمیات محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے کیونکہ اس پر الزام ہے کہ اس نے ماضی میں ماحولیات سے متعلق جو پیشن گوئیاں کی ہیں اس کے بارے میں وہ زیادہ ہی پراعتماد رہا ہے اور اس نے سمندروں میں ہونے والی تبدیلوں کو بہتر طریقے سے نہیں سمجھا تھا۔