رجوکان وادی دو پہاڑوں کے درمیان واقع ہے‘ اس وادی کا کل رقبہ سوا تین مربع کلومیٹر ہے مگر اس وادی کا رخ سورج کی اس سمت پر ہے جہاں یہ وادی سات ماہ تک سورج کی روشنی سے محروم رہتی تھی‘ ستمبر سے مارچ تک اس وادی پر سورج طلوع نہیں ہوتا تھا‘ وادی کے رہائشی زیادہ تر لوگ مقامی صنعتوں میں ملازم ہیں‘ معیشت کا پہیہ انہی صنعتوں اور پیداواری یونٹ سے چلتا ہے لیکن یہ لوگ سات ماہ سورج کی کرنوں سے محروم رہتے تھے‘
سورج کی براہ راست حرارت نہ ہونے کی وجہ سے اس وادی کا درجہ حرارت انتہائی کم رہتا تھا اور یہ سردیوں میں منفی پچاس سینٹی گریڈ تک چلا جاتا تھا جس سے پانی کے ساتھ ساتھ زندگی بھی منجمد ہو جاتی تھی۔ اس وادی نے ان سات ماہ میں صدیوں سے سورج کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا تھا چنانچہ مقامی لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے تھے اور ان کو زندگی کی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا مگر پھر اکتوبر 2013ء میں یعنی تین ماہ پہلے ناروے کی حکومت نے وادی کے لوگوں کی اس مشکل کا ایک عجیب حل تلاش لیا۔ ناروین حکومت نے ان لوگوں کو سورج کی حرارت مہیا کرنے کافیصلہ کر لیا۔ حکومت نے پہاڑ کی چوٹی پر دیوقامت آئینے نصب کرنے کا منصوبہ بنایا‘ ہیلی کاپٹر کے ذریعے وادی سے 450 میٹر بلند پہاڑ کی چوٹی پر تین دیوقامت آئینے نصب کئے‘ ان کا رخ سورج کی مخالف سمت میں رکھا گیا جس کے بعد رجوکان کی یہ وادی سورج کی کرنوں سے جگمگا اٹھی‘
مزید پڑھئے: حکومت کو اب تک کا سب سے بڑا جھٹکا
سورج کی کرنیں آئینوں سے منعکس ہو کر وادی پر پڑتی ہیں تو وادی کسی پرستان کا منظر پیش کرنے لگتی ہے۔ ان آئینوں کی تنصیب کے بعد وادی اور اس کے رہائشیوں کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے اور لوگ یخ بستہ موسم میں سورج کی تمازت سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے ناروین گورنمنٹ نے یہ اقدام صرف ساڑھے تین ہزار لوگوں کیلئے کیا ہے۔
یہ ناروین حکومت کا کارنامہ ہے مگر اس کے مقابلے میں ایک ہم اور ہماری حکومت ہے‘ ایک ایسے دور میں جب دنیا اپنے شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے جدید طریقوں سے استفادہ کر رہی ہے‘ جب یورپین ممالک اپنے شہریوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات‘ چھوٹی چھوٹی مشکلات کا حل تلاشنے میں مگن ہیں اس دور میں پاکستان کے رہائشی پتھر دور کی طرف لڑھک رہے ہیں۔ پاکستان شائد دنیا کا واحد ملک ہے جس میں عوام کو رہائش کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں‘ جس میں 30 لاکھ افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ اڑھائی کروڑ شہری کچی آبادیوں میں مقیم ہیں۔ جس میں آٹھ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے اور دو کروڑ افراد بے روزگار ہیں۔ جس میں گھروں میں مقیم افراد کو سیوریج کی سہولت میسر ہے نہ ہی واٹر سپلائی کی۔ جس میں تین گنا آبادی گیس سے محروم ہے‘ آبادی کا ایک چوتھائی بجلی سے محروم ہے‘ جن کے پاس گیس اور بجلی کے کنکشن ہیں وہ لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں‘ہم لوگ موسم گرما میں لوڈشیڈنگ کی قلت سے بلبلاتے ہیں تو سرما میں گیس بندش کی وجہ سے ٹھٹھرتے رہتے ہیں۔
جس میں پانی جیسی وافر نعمت زحمت بن چکی ہے‘ اٹھارہ کروڑ آبادی کے اس ملک کا 55 فیصد زہرآلود پانی پینے پر مجبور ہے‘ بین الاقوامی تنظیم واٹر ایڈ کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 5 کروڑ افراد کو نکاسی آب اور بیت الخلاء کی سہولت میسر نہیں‘ سیوریج لائنز کا گند صاف پانی میں شامل ہو جاتا ہے جس سے موذی امراض پیدا ہوتے ہیں اور اس وجہ سے پاکستان میں ہر سال 98 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اسی تنظیم کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں گندے پانی سے بیماریوں کی شرح زیادہ ہے‘ پاکستان میں ہیضہ‘ پولیو‘ پیٹ کی بیماریاں اور کالے یرقان کی شرح میں تیزی سے اضافے کی بنیادی وجہ یہی گندا پانی ہے چنانچہ ہر سال 54 ہزار بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ خوفناک امر یہ کہ منرل واٹر کے نام پر گندے پانی کی تجارت جاری ہے لیکن کسی کے کان پر خارش تک نہیں ہوتی۔ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ سے انسانی زندگی سے کھیلا جاتاہے‘ دودھ سے لے کر کھانے کے مسالوں تک میں ملاوٹ نے پورے پاکستان کو بیماریوں کی آماجگاہ بنادیا ہے‘ حتیٰ کہ ادویات تک میں ملاوٹ کر کے انسانی زندگی سے کھیلا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود حکومت اور نہ ہی حکومتی ادارے متحرک ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان ایک پسماندہ ترین ملک ہے لیکن دنیا کے پسماندہ سے پسماندہ ترین ممالک میں بھی انسانی جانوں کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل نہیں کھیلا جاتا بلکہ حکومت اور حکومتی ادارے ملاوٹ کرنے والوں کو حوالہ قانون کرتے ہیں‘ شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بناتے ہیں اور بنیادی ضروریات زندگی کی خالص اشیاء کی ترسیل کی ذمہ داری بھی اٹھاتے ہیں مگرہمارے یہاں سورج کی کرنوں کی تمازت تو دور بجلی کی بنیادی ضرورت کی فراہمی کیلئے سولر پینل تک کی تنصیب جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جدیددور میں جب دنیا نئے نئے تجربے کر رہی ہے ہم آج بھی پتھر سے آگ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ ہم آج بھی ہاتھ میں چقماق لے کر ملک کو روشن کرنا چاہتے ہیں۔