ہفتہ‬‮ ، 01 جون‬‮ 2024 

انسان دوست مکڑی؟

datetime 9  ستمبر‬‮  2015

جاپانی سارا سال ان سامورائی مکڑیوں کی بہت دیکھ بھال کرتے ہیں تاکہ وہ مقابلے کے لیے تیار ہو سکیں۔ یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہوتا ہے جسے دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ مقابلے میں باقاعدہ ایک ریفری ہوتا ہے جو مکڑیوں کی لڑائی کا معائنہ کرتا اورانہیں نمبر دیتا ہے۔ اس بات کاخاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی مکڑی کو تکلیف نہ پہنچے۔ اگر کوئی مکڑی اپنے مخالف کی جان کے درپے ہو جائے تو مقابلہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ مقابلے کے لیے بہترین سائز کی مکڑیوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ اِن کی اگلی ٹانگوں کی لمبائی کو خاص دھیان میں رکھا جاتا ہے۔ جس مکڑی کا سائز بڑا ہو اور اگلی ٹانگیں بڑی ہو ں‘ اس کی جیت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ مقابلے کے بعد جیتنے والی مکڑی کے تربیت کار کو انعام ملتا ہے۔ جاپانی اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ مقابلے کے دوران کسی مکڑی کو تکلیف نہ پہنچے۔ مقابلے کے بعد وہ مکڑی کو آزاد کر دیتے ہیں عموماً وہ جگہ چاولوں کے کھیت ہوتے ہیں۔
جاپان میں لوگ مکڑیوں کی بہت قدر کرتے ہیں۔ آپ کو ہر جگہ مکڑیوں کو چاہنے والے مل جائیں گے۔ ’’پیٹریا واٹا‘‘ کی مثال ہی لے لیجیے۔ پیٹریا واٹا ٹوکیو میں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں پچاس مکڑیوں اور اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ خاص قسم کی مکڑیاں جنھیں جاپانی ’’سامورائی سپائڈر ‘‘ کہتے ہیں‘ پائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی مکڑیوں کو پسند کرنے والوں کی کمی نہیں۔یہاں یونیورسٹیوں میں مکڑیوں پر تدریس و تحقیق جاری ہے۔اب کچھ بات زہریلی مکڑیوں کی ہو جائے۔ ’’سڈنی کی فنل ویب مکڑی‘‘کا شمار زہر یلی ترین مکڑیوں میں ہوتا ہے۔ اگر اس کے ڈسے کا علاج نہ کیا جائے تو پندرہ منٹ میں انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ برازیل کی ’’آوارہ گرد مکڑی‘‘بھی زہریلے پن میں کسی سے کم نہیں۔ اسے وانڈرنگ سپائیڈر اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ جالا نہیں بنتی اور ایک سے دوسری جگہ گھومتی رہتی ہے۔ 2010ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈزمیں اس مکڑی کو دنیا کی سب سے زہریلی مکڑی قرار دیا گیا۔’’سیاہ بیوہ‘‘ بھی قدرے زہریلی مکڑی ہے۔ یہ اپنے ہی نر (خاوند) کو کھا جاتی ہے۔ اسی لیے اس مکڑی کو بیوہ کہا جاتا ہے۔ ویسے تو مکڑیاں صرف کیڑے مکوڑے کھاتی ہیں لیکن بڑے سائز کی مکڑیاں نہ صرف چوہے اور سانپ تک کھاتی بلکہ موقع ملنے پر پرندوں تک کو ہڑپ کر جاتی ہیں۔پاکستانی قارئین کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ خوفناک مکڑیاں کم ہی پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ تارنتولا اور سڈنی فنل ویب پاکستان میں نہیں پائی جاتیں‘ جہاں تک سیاہ بیوہ کی بات ہے کچھ ماہرین حشرات نے اس مکڑی کی پاکستان میں موجودگی کا امکان ظاہر کیا ہے لیکن حکومت پاکستان کو ان مکڑیوں کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔پاکستانی مکڑیوں کی کثیرتعداد انسان اور فصل دوست ہے۔ یہ موذی کیڑے کھا کر ہمیں بیماریوں سے محفوظ اور ہماری قیمتی فصلوں کو تباہی سے بچاتی ہیں۔ مکڑیاں ایک ایسا عجوبہ جاندار ہیں جو قدرت خداوندی کا حسین تحفہ ہیں۔ انھیں اللہ نے انسان کی مدد اور آزمائش کے لیے تخلیق کیا۔کچھ مکڑیاں تو اتنی رنگین اور خوبصورت ہوتی ہیں کہ پتھر سے پتھر دل انسان بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسی ہی ایک مکڑی مور مکڑی ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ جیسے مور اپنے پنکھ پھیلا کر دلفریب اور حسین رنگ بکھیرتا ہے‘ ویسے ہی یہ مکڑی اپنی پیٹھ کے ایک خاص حصے کو پھیلا کر مور کی طرح اپنے حسین و جمیل رنگ پھیلا دیتی ہے۔ اس مکڑ ی کا ناچ بھی دیکھنے والا ہوتا ہے۔ مکڑی کو اللہ تعالیٰ نے ایک حیرت انگیز خوبی سے نوازا ہے‘ وہ ہے اس کی ریشم پیدا کرنے کی صلاحیت۔ مکڑی کی ریشم مختلف اقسام کی ہوتی ہے۔ ’’کیلامکڑی‘‘کی ریشم تو اس قدر مضبوط ہے کہ سٹیل کی مضبوطی اس کے مقابلے میں کم سمجھی جاتی ہے۔ اسی خاصیت کی بنیاد پر سائنسدان اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ مکڑی کے ریشم سے انسانی بلٹ پروف لباس تیار کیا جائے۔ یہ ریشم اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ گولی کو بھی روک سکتا ہے۔ اگر اسے مصنوعی پیمانے پر تیار کر کے حفاظتی لباس بنا لیا جائے تو پولیس کو اسلحہ بردار مجرموں سے نمٹنے میں آسانی رہے گی۔ مکڑیوں میں مادہ کا سائز عموماً نر کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتاہے۔ اسی لیے وہ اکثر مادہ کی خوراک بن جاتا ہے۔ مکڑیوں کی دنیا میں نر کی حیثیت بہت ہی مسکین اور یتیم جیسی ہے۔ پہلے وہ مادہ کے ناز و نخرے اٹھاتا اور جان ہتھیلی پر رکھ کر اس کے پاس جاتا ہے۔ بعد میں اسے اپنی ہی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر وہ مادہ کے پاس سے بھاگتا ہے۔ ریشم کے کیڑے کی طرح مکڑی سے بھی ریشم حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ وجہ یہ ہے کہ مکڑیاں بڑی تعداد میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔ ایسی صورت میں یہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا اور اپنی ہی نسل کو کھانا شروع کردیتی ہیں جبکہ ریشم کے کیڑے ہزاروں کی تعداد میں بڑے مزے سے اکٹھے رہتے ہیں۔ مکڑی کی بیشتر اقسام ماحول دوست جاندار ہیں۔ پاکستانی مکڑیوں پر جاری تدریس و تحقیق کو بین الاقوامی معیار کا بنا کر ہم کیڑے مار ادویہ پر خرچ اور ضائع ہونے والے قیمتی سرمائے کو بچا سکتے ہیں۔



کالم



صرف ایک زبان سے


میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘…

آل مجاہد کالونی

یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے‘ میرے ایک دوست کسی…

ٹینگ ٹانگ

مجھے چند دن قبل کسی دوست نے لاہور کے ایک پاگل…

ایک نئی طرز کا فراڈ

عرفان صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ یہ کراچی میں…

فرح گوگی بھی لے لیں

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں‘ فرض کریں آپ ایک بڑے…

آئوٹ آف دی باکس

کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…