اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے ایوان کی منظوری سے چیف جسٹس پاکستان سمیت تمام ججز کو خط لکھنے کا اعلان کر تے ہوئے کہاہے کہ ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے ،پارلیمان میں سپریم کورٹ کے حوالے سے تقریر ہوئی ہیں، قرارداد بھی پیش کی جا چکی ہے، تمام ممبران پارلیمان کے جذبات و خیالات پر مشتمل خط تحریر کرنا چاہتا ہوں
جبکہ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا عدالت حکم دے اور ہم پیسے دے دیں،پروسیجر پر عمل کیے بغیر کوئی رقم جاری نہیں کی جاسکتی ،اسٹیٹ بینک یہ رقم ریلیز کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، قانون کے تحت فنڈز کا معاملہ کابینہ اور پھر ایوان میں لے کر آئے،پارلیمنٹ بااختیار ہے کوئی کچھ نہیں کرسکتا، جس کی قرارداد وفاقی حکومت کو کہہ رہی ہے کہ پیسا نہ دیں، پنجاب اسمبلی والا معاملہ 63 اے کو ری رائٹ کرنے سے ہوا،فیصلے کے ذریعے آئین دوبارہ نہ لکھا جاتا تو آج اسمبلیاں موجود ہوتیں،پورے ملک میں ایک وقت میں انتخابات ہوں تو 47 اعشاریہ 4 ارب روپے خرچ ہوں گے، بجٹ اور سپیلمنٹری بجٹ کے حوالے سے آئینی شقیں بڑی واضح ہیں۔ بدھ کو یہاں قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ پروسیجر پر عمل کیے بغیر کوئی رقم جاری نہیں کی جاسکتی انہوں نے کہا کہ کابینہ یا اقتصادی رابطہ کمیٹی سمری کے بغیر رقم کی ادائیگی کا فیصلہ ہوا میں نہیں کر سکتی۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک یہ رقم ریلیز کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، قانون کے تحت فنڈز کا معاملہ کابینہ اور پھر ایوان میں لے کر آئے۔انہوںنے کہاکہ پارلیمان کا کہنا ہے کہ وہ چار تین کا فیصلہ مانتے ہیں، پارلیمنٹ بااختیار ہے کوئی کچھ نہیں کرسکتا، جس کی قرارداد وفاقی حکومت کو کہہ رہی ہے کہ پیسا نہ دیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ 23-2022 میں الیکشن کیلئے صرف 5 ارب روپے رکھے گئے تھے، مزید بات چیت کے بعد 47 اعشاریہ 4 ارب روپے الیکشن کمیشن کے لیے رکھے گئے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی والا معاملہ 63 اے کو ری رائٹ کرنے سے ہوا،
آج تک دنیا حیران ہے جو 63 اے کی نئی تشریح سامنے آئی ہے، اس فیصلے کے ذریعے آئین دوبارہ نہ لکھا جاتا تو آج اسمبلیاں موجود ہوتیں۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ 25 ممبران کا کوئی گناہ نہیں تھاجن کے ووٹ گنے نہیں گئے، یہ افراتفری پھیلانے کی بدترین کوشش تھی۔انہوںنے کہاکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے حکومت سے انتخابات کے لیے فنڈز مانگے گئے، فنڈز کی درخواست وزارت خزانہ میں آئی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے لکھا کہ جو فنڈز آپ مانگ رہے ہیں، اس میں اضافی اخراجات کتنے ہوں گے، بتایا گیا کہ 14 اعشاریہ 4 ارب کے اضافی خرچ کی ڈیمانڈ ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا الیکشن میں 14 ارب کے اضافی اخراجات بھی ہوں گے،
اس پراسس پر ایک پٹیشن فائل ہوئی، ایوان نے ایک قرارداد منظور کی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پورے ملک میں ایک وقت میں انتخابات ہوں تو 47 اعشاریہ 4 ارب روپے خرچ ہوں گے، بجٹ اور سپیلمنٹری بجٹ کے حوالے سے آئینی شقیں بڑی واضح ہیں۔اسحق ڈار نے کہاکہ کیا یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ الیکشن 90 دن میں نہیں ہو رہے، اگر ہم ابھی پیسے دے دیں تو کیا الیکشن 90 دن میں ہوجائیں گے؟۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ الیکشن 90 دن سے آگے جانے کی نظیریں تاریخ میں موجود ہیں، بینظیر کی شہادت اور 88 میں قدرتی آفت کی وجہ سے الیکشن 90 دن سے آگے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ پوچھتا ہوں کیا ہوجائے گا اگر الیکشن تین چار ماہ آگے چلے جائیں؟ پاکستان جس معاشی بحران میں گھرا ہے وہ موجودہ حکومت کا پیدہ کردہ نہیں۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ 5 سال پہلے میری بات مانی گئی ہوتی تو یہ بحران نہیں ہوتا،
موجودہ بحران کے ذمے دار پاناما ڈرامہ، ڈان ڈرامہ اور نواز شریف کو نکالنے والے ہیں۔انہوںنے کہاکہ معیشت میں گراوٹ کا رجحان رک چکا ہے، 25 سال سے آئی ایم ایف سے ڈیل کر رہا ہوں کبھی پیشگی شرائط نہیں لگیں، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ منی بل مسترد ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وزیراعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل نہیں ہے، اس ایوان نے سوچ سمجھ کر فنڈز کے اجرا کو مسترد کیا، ایوان نے ادائیگی کو دوٹوک انداز میں روک دیا، یہ ایوان 3 مرتبہ اپنا فیصلہ سنا چکاہے۔انہوں نے کہا کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ملک میں الیکشن 90 روز میں نہی ہو رہے،
پہلے بھی الیکشن تارخیر کا شکار ہوچکے ہیں اور ابھی بھی 90 روز کا وقت گزر چکا ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ پاکستان مردم شماری پر 35 ارب روپے خرچ کر رہا ہے، 2017 میں بھی اس پر اربوں روپے خرچ کیے گئے، جو تماشے ہم اس وقت کر رہے ہیں تو کیا پاکستان اس کا متحمل ہوسکتا ہے، قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اسحق ڈار نے کہاکہ پاکستان اس وقت ایک بد ترین معاشی بحران سے نکل رہا ہے
جس میں اسے اس حکومت نے نہیں گزشتہ حکومت نے ڈالا، ہماری حکومت نے اس ملک کو دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بنادیا تھا جو اب 47ویں معیشت بن چکا ہے جو رونے کا مقام ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن ایک دن میں ہو سکتے ہیں، کدھر ہے حب الوطنی اور ملک کی فکر، کیا ہوجائیگا اگر الیکشن تین چار مہینے بعد ہوجائیں گے ، الیکشن اکتوبر میں ہونے دیں، کیا پریشانی ہے؟، اس ملک کو تباہ کرنے والوں کو بے نقاب کرنا چاہیے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ میں کبھی کسی غیر آئینی کام کا مشورہ نہیں دوں گا، ہمیں جو کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے وہ غیر آئینی کام ہے، آپ یہ فرض نہیں کرسکتے کہ آپ جائیں، فنڈز جاری کردیں، ایوان میں بیٹھے لوگ کوئی غلام ہیں جو جون میں اس کی منظوری دے دیں گے، میں ایوان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی کرے۔
قبل ازیں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ ایک شخص کی انا کی خاطر اسمبلیاں توڑی گئیں، سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ 183 تھری کے تحت کیس مناسب نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ 4 معزز ججز نے درخواستیں خارج کیں اور معزز ایوان نے قرارداد منظور کی جس میں سیاسی معاملے کو عدالت میں جس طرح دیکھا اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے دینے کی ہدایت کی تاہم اس ضمن میں ایوان پہلے ہی فیصلہ دے چکا تھا، اس لیے معاملہ قومی اسمبلی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ اور سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں گیا اور دونوں کمیٹیوں نے فیصلہ کیا کہ چار ججز کے فیصلے کو مانتے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل اس ہاؤس میں بھیجا گیا تو معزز ایوان نے اسے مسترد کردیا جس کے بعد یہ معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ کو رپورٹ کیا گیا اور عدالت نے اسٹیٹ بینک کو 21 ارب دینے کی ہدایت کی جب کہ وزارت خزانہ سے کہا گیا آپ یہ رقم بھجوائیں گے۔انہوںنے کہاکہ آئین میں واضح ہے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں چارجڈ خرچوں کے علاوہ کوئی بھی رقم کی منظوری دینا معزز ایوان کا اختیار ہے،
البتہ یہ بات درست ہے وفاقی حکومت کئی بار کابینہ سے سپلیمنٹری گرانٹ دے چکی ہے۔الیکشن فنڈز سے متعلق وزیر قانون نے کہا کہ اس کیس میں عدالتی احکامات تھے اور ہاؤس کا وفاقی حکومت کو حکم تھا کہ ایوان کے سامنے رکھے بغیر فنڈز سے رقم دینی ہے تو منظوری کرائیں اور اگر آج 21 ارب روپے جاری کر بھی دیئے اور کل ہاؤس نے منظوری نہ دی تو قومی خزانے سے نکلی رقم کہاں گنی جائے گی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت ایوان نے اپنے حق کا استعمال کیا، سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت میں کچھ احکامات جاری کئے، دوبارہ حکم ہوا وفاقی حکومت فنڈز دے اور پارلیمان و حکومت کا معاملہ بعد میں طے ہوتا رہے گا۔وزیر قانون نے کہا کہ آئین میں درج ہے کہ ایف سی ایف سے جب بھی رقم نکلے گی وہ ایوان کی منظوری سے مشروط ہوگی
جب کہ ایوان کہہ چکا ہے یہ رقم ایف سی ایف سے نہیں دی جا سکتی۔جے یو آئی کی رکن شاہدہ اختر نے کہاکہ میں اس ایوان کی 2002 سے ممبر رہی ہوں اس طرح کے مسائل نہیں دیکھے ،دو جملے کہوں گی، ابھی نہیں کبھی نہیں۔انہوںنے کہاکہ وقت ہے ہم اس کی نزاکت کو سمجھیں ،ہمیں پارلیمان کی بالا دستی کیلئے کھڑا ہونا ہوگا،سوموٹو وہاں لینا چاہئے تھا کہ اسمبلیاں توڑی گئیں ،ہماری بالادستی ہوگی
جب اپنے فیصلے پے قائم رہینگے۔ انہوںنے کہاکہ تین ججز کے فیصلے کی اہمیت ہے پارلیمان کے فیصلے کی اہمیت نہیں ۔ انہوںنے کہاکہ فیصلے ہم پر مسلط کیے جا رہے ہیں اور طریقہ بھی بتایا جا رہا ہے ،یہ فیصلے نہیں سہولت کاری ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم پارلیمان کیساتھ ہیں آئین پاکستان کیساتھ ہیں،بجٹ ہمارا اختیار ہے کسی اور کا نہیں۔ رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ نے کہاکہ یہ سو موٹو نہیں ساسو موٹو تھا،
اس آڈیو کا فورنزک کرایا جائے۔ انہوںنے کہاکہ گھر میں بیٹھی خواتین اس ملک کی سپریم ادارے کو ڈکٹیٹ کرتی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ملک آئین اور قانون کی بات نہیں ان کی منشا پر چل رہا ہے ، بات آئین اور قانون سے آگے نکل چکی۔انہوںنے کہاکہ آڈیولیکس کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے۔آغا رفیع اللہ نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ سفید پوش بلڈنگ میں بیٹھا شخص چاہتا ہے
ملک میں انارکی ہو،اس کی ہمت نہیں کہ اس ایوان کو ڈکٹیٹ کرے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رکن امیر حیدر خان ہوتی نے کہاکہ ہم نے اس آئین کا ہر حال میں تحفظ کرنا ہے،آئین میں کہاں لکھا ہے کہ۔ممبر ووٹ نہیں کرتاتو گنا بھی نہیں جائیگا؟سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ آتا تو اسمبلی برقرار رہتی۔انہوںنے کہاکہ وہ غیر آئینی فیصلہ کس کا تھا،آئین میں کہاں لکھا کہ کہ چار ججز کا فیصلہ نہیں 3 ججز کا فیصلہ ماننا ہے،ہم نے چار ججز کے فیصلے کوماننا ہے تین ججز کے فیصلے کو تسلیم نہیں کر سکتے۔
انہوںنے سوال اٹھایاکہ کیا وجہ ہے سارے سیاسی مقدمات تین ججز کے سامنے ہی آتے ہیں۔وفاقی وزیر برجیس طاہر نے کہاکہ ہمیں استحقاق کمیٹی میں کسی کو بھی بلانے کا اختیار ہے ،ہم نہیں چاہتے کہ ججوں کو تحریک استحقاق کمیٹی میں بلائیں ،ہم نے سابق صدر فاروق لغاری کو بھی بلایا تھا ۔ انہوںنے کہاکہ ہماری قائمہ کمیٹی خزانہ کی سفارشات تھیں کہ فنڈز نہ دیئے جائیں ،
ایوان نے قرارداد اور قانون منظور کیا ہے ،جو اس قرارداد یا قانون نہیں مانتا اسے توہین پارلیمنٹ کے تحت بلایا جاسکتا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ سپیکر قومی اسمبلی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھیں ،یا ہمیں کہہ دیں ہم استعفے دے کر گھر چلے جائیں ۔ انہوںنے کہاکہ ہم جو قانون سازی کرتے ہیں وہ اڑا کر رکھ دیتے ہیں ،قرارداد اور قانون منظور کرنے کا اختیار صرف اس ایوان کو ہے ۔
انہوںنے کہاکہ اس تین رکنی بینچ نے توہین عدالت و پارلیمان دونوں کی ہیں ،ہمیں اس پارلیمان کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی منظوری سے چیف جسٹس پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججز کو خط لکھنے کا اعلان کر تے ہوئے کہاکہ ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے ۔
راجہ پرویز مشرف نے کہاکہ تجویز یہ ہے کہ فاضل ممبراں کو جذبات سپریم کورٹ کو پہنچاؤں ، میں کوشش کروں گا کہ آج ہی چیف جسٹس اور دیگر ججز کوخط لکھوں۔انہوںنے کہاکہ پارلیمان میں سپریم کورٹ کے حوالے سے تقریر ہوئی ہیں،اس حوالے سے قرارداد بھی پیش کی جا چکی ہے، تمام ممبران پارلیمان کے جذبات و خیالات پر مشتمل خط تحریر کرنا چاہتا ہوں۔انہوںنے کہاکہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور تمام جج صاحبان کے نام تحریر کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ اس وقت ملک میں چند عناصر کی ضد کی وجہ سے تمام اداروں اور آئین کی ’ماں‘ پارلیمان کی بار بار توہین کی جارہی ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب میں کابینہ میں تھا تو وزیر قانون اور اٹارنی جنرل وضاحت کر رہے تھے کہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے جو حالیہ فیصلہ آیا ہے اس میں کیا لکھا گیا ہے تو مجھے تعجب ہوا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ادارہ جس کو ہم سب کا تحفظ کرنا ہے،
آئین کی حفاظت کرنی ہے وہ کیسے لکھ سکتا ہے کہ پارلیمان کے فیصلے کو بھول جائیں، عدالت کے اقلیتی فیصلے کو تسلیم کریں۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنا اقلیتی فیصلہ اکثریتی ثابت کرکے ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی ہفتوں سے آج بھی ملک میں جو تماشا چل رہا ہے اور آئینی بحران پیدا کیا گیا ہے، سپریم کورٹ اپنا اقلیتی فیصلہ اکثریتی ثابت کرکے ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اقلیتی ججز کی طرف سے خیبرپختونخوا کے حد تک 90 روز کی شق تک عملدرآمد نہیں ہو رہا، جہاں تک 30 اپریل یا 14 مئی کا فیصلہ ہے تو سپریم کورٹ کے ججز نے بھی 90 روز کی مدت کو کھینچا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ جو کوشش کی جارہی ہے کہ ہم آئین کے خلاف کوئی قدم اٹھانا چاہتے ہیں، لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ نا تو 90 روز اور نہ ہی کسی اور صورتحال میں ہم آئین کی خلاف ورزی چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ وہ آئین پر عملدرآمد کرے، ان کا یہ کام نہیں کہ ہمارے آئین میں تبدیلیاں لائیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے اس آئین کو بنایا تاکہ وفاق کو جوڑیں اور تمام صوبوں کو اپنے حقوق دلائیں اور تمام اداروں کی عزت اور خیال رکھا جائے۔انہوں نے سوال کیا کہ عدالت وزیراعظم کو ایسا حکم کیسے دے سکتی ہے۔
انہوںنے کہاکہ ہم نے ماضی میں بھی کسی آمر یا چیف جسٹس کے کہنے پر آئین کو نہیں توڑا اور آج بھی اگر اعلیٰ عدلیہ کہتی ہے کہ پارلیمان کے حکم کو نظرانداز کیا جائے تو ہم اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔بلاول بھٹو زر داری نے کہا کہ پارلیمان کے پاس ایک ہی چیز ہے جو کوئی بھی ادارہ اس سے نہیں لے سکتا، پارلیمان کو فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کے عوام کا پیسا کہاں اور کیسے خرچ ہونا ہے، ہر اس مقدس ادارے کے حکم کے پابند ہیں کسی اور ادارے کے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں سپریم کورٹ کے آخری خط میں ’توہین پارلیمان‘ ہوئی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک ادارہ اپنے اوپر ذمہ داری لیے اور ہمیں حکم کرے کہ آئین توڑو، پارلیمان کی بات نہ مانیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ جب بھی پارلیمان یا اس کے کسی رکن کے استحقاق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کے لیے استحقاق کمیٹی موجود ہے اس لیے میری رائے ہے کہ اس دھمکی آمیز خط کو استحقاق کمیٹی میں بھیجا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہم سب کو جوابدہ ہیں اور جب ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو وہ ہم سب پر تنقید ہوتی ہے اس پارلیمان پر تنقید ہوتی ہے اور جب اعلیٰ عدلیہ میں نازیبا الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو وہ ایک آدمی کی توہین نہیں بلکہ ملک کے وزیراعظم کی توہین ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ججز کے جو بھی خیالات ہوتے ہیں ہم ان کو عزت سے پکارتے ہیں اس لیے ان کو بھی چاہیے کہ ہمیں عزت سے پکاریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم 4 تھری کے اکثریتی فیصلے کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، اس لڑائی اور آئینی بحران میں پاکستان کے عوام اور معیشت کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ سیکیورٹی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر عدلیہ اپنی حدود اور پارلیمان اپنی حدود میں آجائے تو مذاکرات کے معاملات پر اتحادیوں کو قائل کرنے میں آسانی ہوگی۔
اجلاس کے دور ان قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے ایوان کی منظوری سے چیف جسٹس پاکستان سمیت تمام ججز کو خط لکھنے کا اعلان کر تے ہوئے کہاہے کہ ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے ،پارلیمان میں سپریم کورٹ کے حوالے سے تقریر ہوئی ہیں، قرارداد بھی پیش کی جا چکی ہے، تمام ممبران پارلیمان کے جذبات و خیالات پر مشتمل خط تحریر کرنا چاہتا ہوں۔
راجا پرویز اشرف نے اس فیصلے کا اعلان ایوان سے رائے لینے کے بعد کیا جس کا اظہار اراکین نے ڈیسک بجا کر کیا جب کہ مسلم لیگ (ن) کے محمد برجیس طاہر سمیت متعدد قانون سازوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی پر زور دیا۔قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے یہ فیصلہ وفاقی کابینہ کے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فنڈز جاری کرنے کے لیے وزارت خزانہ کی سمری دوبارہ پارلیمنٹ کو بھیجنے کے فیصلے کے بعد کیا گیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ایک سینئر ممبر سمیت دیگر کی جانب سے کی باتیں ہم نے سنیں، اس وقت ہمارا ملک بڑی ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے، میں ا?پ سے ایوان کی جانب سے سامنے آنے والی اس تجویز پر رائے لینا چاہتا ہوں کہ تمام ممبران کے جذبات و احساسات اور ان کے خیالات خط کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور تمام جج صاحبان تک پہنچاؤں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں میں ایوان کی رائے لینا چاہتا ہوں جس پر اراکین نے ڈیسک بجا کر اس کی تائید کی، اسپیکر نے کہا کہ میں کوشش کروں گا کہ اس سلسے میں خط آج ہی چیف جسٹس اور دیگر ججز کو لکھوں۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس (آج)سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔