بدھ‬‮ ، 30 اپریل‬‮ 2025 

نگران حکومت کے 90دن پورے ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں انتخابات تک اب کون حکومت کرے گا ؟ قانونی ماہرین کا انکشاف

datetime 25  اپریل‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی )قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ منتخب حکومت کی تشکیل تک نگران سیٹ اپ کام کرسکتا ہے ،نگران حکومت صرف اس وقت گھر جاسکتی ہے جب اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردیا جائے، اس حوالے سے کسی خاص مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے لہٰذامعاملات حکومت کے بغیر نہیں چھوڑے جاسکتے ہیں

سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس نے کئی مواقعوںپر فیصلہ دیا ہے کہ ایک نگران سیٹ اپ مستقل حکومت کے قیام تک کام جاری رکھ سکتا ہے،خواجہ احمد طارق رحیم اور فیڈریشن آف پاکستان کے 1991 کے مشہور مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ کے 5 رکنی بنچ نے قرار دیا تھا کہ نگران حکومت کو مستقل حکومت کو کابینہ تشکیل دینے تک مکمل ذمہ داری کے ساتھ ذمہ داری نبھانی چاہیے اور فیصلے کی توثیق 1992 میں سپریم کورٹ کے 12 رکنی بنچ نے کی تھی،نگران وزیر اعظم سے متعلق کیس میں عدالت عالیہ کے بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ نگران وزیر اعظم کی مدت انتخابات کے بعد نئی اسمبلی کی جانب سے مستقل وزیراعظم کے چنا ئوتک جاری رہے گی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے 2013 میں قرار دیا تھا کہ نگران وزیراعظم کو عبوری دورانیے میں ریاستی امور چلانے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے جو منتخب حکومت کی واپسی تک کام کرتا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ اسی لیے نگران حکومت موجودہ عبوری مدت اور ایک منتخب حکومت کے آنے تک کام کرتی رہے گی۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے 90 کی دہائی کے کئی مقدمات کے علاوہ 2008 کے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تھا تو نگران سیٹ اپ کو منتخب حکومت کے آنے تک کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کی جانب سے کام جاری رکھنا آئین کی کسی شق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ایڈووکیٹ ملک اویس خالد نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 254 اختیار دیتا ہے کہ اگر کوئی کام آئین میں طے کردہ مقررہ وقت کے اندر مکمل نہ ہو پائے تو مذکورہ قانون ناقابل عمل نہیں ہوگا کیونکہ اس طرح کی وجوہات موجود ہیں۔پنجاب اور خیبرپختونخوا ہ میں نگران حکومتوں کو آئینی مدت کے لیے دی گئی

مہلت کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور انہیں عام انتخابات تک کام کرنے کا اختیار ہوگا۔ایڈووکیٹ خرم چغتائی نے اپنے موقف میں کہا کہ سپریم کورٹ کو دو صوبوں کی نگران حکومت کے تسلسل سے متعلق کسی فیصلے کی ضرورت پڑی تو 1992 کے خواجہ احمد طارق رحیم کیس کی روشنی میں 12 رکنی سے کم لارجز بنچ تشکیل نہیں دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت منتخب حکومت کی تشکیل تک جاری رہ سکتی ہے تاہم 18ویں ترمیم کے بعد آئینی شق کی نئی تشریح کی ضرورت ہوگی۔ترامیم اور قانون سازی کے بعد نگران حکومت کو ایک مخصوص دورانیہ دیا گیا ہے۔ایک لا ء افسر نے بتایا کہ اس کے علاوہ بھی متعد مثالیں ہیں جیسا کہ 2010 میں بیلجیئم میں معلق پارلیمنٹ کی وجہ سے نگران حکومت کا دورانیہ 500 روز کا ہوگیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 1996 میں بھارت میں قانونی اقدامات کے ذریعے نئی حکومت آنے تک نگران حکومت کی توسیع کی گئی تھی۔2010 میں آسٹریلیا میں نگران حکومت کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا تھا، واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے نگران حکومت کی مدت میں نئی حکومت تک توسیع کردی گئی تھی لیکن اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ منظوری دے دی تھی۔انہوں نے کہا کہ 2019 میں تھائی لینڈ میں نگران حکومت نے بغیر کسی توسیع کے مقررہ مدت کے بعد بھی کام جاری رکھا تھا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



27فروری 2019ء


یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…