ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کئے جا سکتے ہیں، چیف جسٹس پاکستان

28  مارچ‬‮  2023

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آ ف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ انتخابات کرانے کیلئے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے،کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے

الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائیگی،جمہوریت کیلئے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے،الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا، 2008 میں انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے،ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں، کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟‘دہشتگردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے، کیا تب الیکشن نہیں ہوئے؟ ۔ منگل کو پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی۔پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل ہے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے آپ سے بہترین معاونت ملے گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا، جمہوریت کیلئے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی،

سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے۔اس دوران پیپلزپارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ملک میں اس وقت انارکی اور فاشزم ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ

عدالتی فیصلہ اگر 3-4 کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے، موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے،

سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا، اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں، سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے‘۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں،

آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں‘، اس پر علی ظفر نے کہا کہ ’انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو بحران مزید بڑھے گا۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جاسکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈجسٹ کرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن بظاہر 90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’اب 90 دن بھی گزر گئے ہیں، آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پرواہ نہیں کرتا، الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریخ کون بڑھائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے، اس پر پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ منتحب نمائندے ہوتے ہیں‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے، اس پر علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے؟، اس پر علی ظفر نے کہا کہ ’وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل ہو چکا ہے، صدر مملکت کی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا، سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو تبدیل کر دے، کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ایسا کر سکتا ہے؟، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلے پر عمل کیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کے تعین کا اختیار ہے، کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا، 2008 میں انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے 2 آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے،

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا کہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کرسکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مؤقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہوگا، ہر ادارہ آئین اور قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟‘، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صدر نے بھی الیکشن کی تاریخ 90 روز کے بعد کی دی، آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ

عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن چھ ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو 2 سال بھی کر سکے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے۔

یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگران حکومت فنڈز کیسے دے گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے کہا فنڈز فراہم نہیں کیے گئے، الیکشن کمیشن نے کبھی فنڈز دینے کی ہدایت نہیں کی تھی، اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اخبار میں وزیر اعظم کا بیان پڑھا تھا، وفاقی حکومت کہتی ہے فروری تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا، حیرت ہے کہ 500 ارب میں سے 20 ارب نہیں دیے گئے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق سیکریٹری خزانہ نے کہا فنڈز دینا مشکل ہوگا، وزارت خزانہ نے مشکل کہا تھا انکار نہیں کیا تھا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ سیکرٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کے لیے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکریٹری ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے،

ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جاتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے۔پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ

’اگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے؟فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے، سیکریٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’سیکریٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے کے پیسے کہاں سے آنے ہیں،

اس پر چیف جسٹس نے انتخابات کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، معاشی بحران کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا،

بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے، خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے، پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے، سندھ میں 367 جبکہ خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے، پنجاب کی صورتحال خیبرپختونخوا سے مختلف ہے، ترکیہ میں زلزلہ متاثرہ علاقوں کے علاوہ ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے،

ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں، کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایبسلوٹلی ناٹ، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایبسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا، چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا بجٹ میں انتخابات کے لیے فنڈز مختص ہیں،

اگر فنڈز نہیں ہیں تو فنڈز لینے کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ نومبر 2022 میں الیکشن کیلئے تیار ہیں، اب الیکشن کمیشن اچانک کہتا ہے فنڈز نہیں ہیں، فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں، الیکشن کمیشن کے مطابق انتحابی عملہ موجود ہے، سیکیورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، سیکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا ہے، پولیس نفری کم ہونے کا بہانہ تو ہمیشہ رہے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اس کا تھا ہی نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرسکتا تھا، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا تو معاملہ یہیں آنا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ جانے سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ

’وقت کی قلت ہے، مزید چارہ جوئی میں وقت ضائع نہیں کرسکتے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہائی کورٹ نے کروانا ہے، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’معاملہ 2 صوبوں کا ہے، ایک ہائی کورٹ عمل نہیں کروا سکتی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے احکامات کو تبدیل نہیں کر سکتی،

اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، مناسب ہوگا سپریم کورٹ خود کیس سنے۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن انتظامی اداروں کے خلاف خود کارروائی کر سکتا ہے؟، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کر سکتا ہے،

ادارے عملدرآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا وہ تاریخ مقرر نہیں کر سکتے۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے بعد میں 8 اکتوبر کی تاریخ غلط کیسے دی؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اکتوبر میں پھر کہہ دے کہ حالات ٹھیک نہیں تو کیا الیکشن جنوری تک جا سکتے ہیں،

عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے، قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں، غیر آئینی اقدام کے خلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے، آئین کا پہلا اصول اسلام، دوسرا جمہوریت ہے، جمہوریت انتحابات سے ہی ہوتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 58 کا اختیار الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ

اگر الیکشن کمیشن اپنا حکم واپس لے کر کہے کوئی مدد نہیں کر رہا تو کیا ہوگا؟ اپنی مشکلات حل کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کو عدالت ہی آنا ہوگا۔بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے، دریں اثنا عدالت نے سماعت میں سوا دو بجے تک وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے، گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنچ ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع اس کے وکلا کریں گے، حکومت سے فنڈز اور سیکورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا، پولنگ اسٹیشنز پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا، فنڈز کے حوالے سے کل سیکریٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیل دوں گا،

آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170 ارب حکومت نے وصول کرنے تھے، اضافی وصولی کے لیے ضمنی بجٹ دیا گیا، جو معلومات ابھی دے رہا ہوں وہ میری سمجھ کے مطابق ہیں۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مزید اقدامات کر کے 20 ارب اضافی نہیں لیے جا سکتے؟، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اضافی ٹیکس لگانے سے عوام کو مزید مشکلات ہوں گی۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ

حکومت نے تخمینہ 170 ارب سے زیادہ کا ہی لگایا ہوگا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ 30 جون تک 170 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے، آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے، شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا 20 ارب روپے جمع کرنا حکومت کے لیے مشکل کام ہے؟ کیا عام انتحابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟

صوبوں کو اندرونی اور بیرون خطرات سے بچانا وفاق کی آئینی ذمہ داری ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں، معاشی صورتحال سے (آج) بدھ کو آگاہ کروں گا۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا تھا الگ الگ الیکشن کروانے کے پیسے نہیں ہیں‘، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیکریٹری خزانہ نے الیکشن کمیشن کے بیان پر کہا تھا،

انہوں نے ایسا کہا ہوگا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ معاملہ ترجیحات کا ہے، لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 10 ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے 20 ارب کیوں نہیں۔اس پر کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ’ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی اراکین کو فنڈز دیے گئے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کہ اراکین کو فنڈز دینا عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ہدایت لے کر آگاہ کروں گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’الیکشن کے لیے فنڈز دینا صوبے کی ذمہ داری ہے یا وفاق کی؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کیا ترقیاتی فنڈز کے اعلان کی وقت آئی ایم ایف کی شرائط نہیں تھیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ترقیاتی فنڈ والی بات شاید 5 ماہ پرانی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کے لیے فنڈز فراہم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت سپلمنٹری گرانٹ جاری کی جاسکتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی کا ہے، وزرات دفاع نے کہا سیکیورٹی حالات کی وجہ سے فوج فراہم نہیں کرسکتے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟‘ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ہوسکتا ہے

الیکشن کمیشن نے سوچا ہو تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہوجائے گی۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ شہدا اسی دھرتی کے سپوت ہیں، اس سے زیادہ کوئی کیا کرسکتا ہے کہ اپنی جان کی قربانی دے، افواج کے خاندانوں کا حوصلہ ہے کہ اپنے بچوں کو مورچوں میں بھیجتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا، دہشت گردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے، کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے،

کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئی، پیپلز پارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا، ان تمام حالات کے باوجود انتحابات ہوتے رہے ہیں، دوسری جنگ عظیم میں بھی انتحابات ہوئے تھے۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1988 میں انتحابات اگست میں ہونے تھے، جنرل ضیا کی وفات کے بعد الیکشن نومبر میں ہوئے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 1988 میں الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کس نے کیا تھا اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قائم مقام صدر نے الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا تھا، 1988 میں بھی فنڈز کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے سے خلا پْر کیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا ہم سمجھیں قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، کیا یہ پھر بنانا ریپبلک بن گیا ہے، آرمڈ فورسز حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں، وہ کیسے کہہ سکتے ہیں ہم نہیں کر سکتے، ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے، کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہیے تھا۔اٹارنی جنرل نے ریمارکس دہے کہ آئینی اختیار استعمال کرنے میں سوال ہو تو معاملہ عدالت ہی آتا ہے، اس سوال کا بہتر جواب الیکشن کمیشن کے وکیل دے سکتے ہیں

، 2008 میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی، کسی جماعت نے الیکشن کی نئی تاریخ کو چیلنج نہیں کیا تھا۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’محترمہ کی شہادت الیکشن ملتوی کرنے کی بڑی وجہ تھی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اس وقت کی سیاسی قیادت نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں، کمیشن کو تیار رہنا چاہیے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ چیف الیکشن کمشنر نے خود کہا تھا کہ 4 ماہ میں الیکشن کروا سکتے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ملک کے اس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں فرق ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ حکومت چلانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن وہی وجہ بتا سکتا ہے جو اس کے حکم میں لکھی ہوئی ہے‘،

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت کو مردم شماری سے بھی آگاہ کروں گا، مردم شماری ابھی بھی جاری ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مردم شماری کے بعد 4 ماہ حلقہ بندی میں بھی لگتے ہیں‘، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سرکاری عملہ مردم شماری میں مصروف ہے، مردم شماری کے بعد

نشستوں کا تناسب بدل جاتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مردم شماری کے دوران الیکشن نہیں ہو سکتے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جس مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہوں اس کی بنیاد پر ہی الیکشن ہوتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اگر مردم شماری کے دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی تو کیا ہو گا، کیا نگران حکومت مردم شماری کے نتائج شائع کر سکتی ہے‘،

اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 30 اپریل کو مردم شماری مکمل ہونی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ مردم شماری کے نتائج آنے میں کئی سال لگے تھے، آپ پر بھروسہ کیسے کریں کہ نتائج تاخیر سے شائع نہیں کریں گے، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ

دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، آئین کے تحت 90 دن میں الیکشن ہونا ہے، مشترکہ مفادات کونسل جو بھی کرے کیا الیکشن کی آئینی مدت آگے جا سکتی ہے، آئینی طور پر مشترکہ مفادات کونسل کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مردم شماری کا اثر پنجاب اور کے پی کے میں قومی اسمبلی کے الیکشن پر پڑے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ صوبوں میں قومی اسمبلی کے

الیکشن کا نئی حلقہ بندیوں پر کیا اثر پڑے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2017 سے ایک سیاسی جماعت مردم شماری پر اعتراض کر رہی ہے، عوام کی نمائندگی ہی شفافیت ہونی چاہیے، پہلی بار عدالت الیکشن ملتوی کرنے کی وجوہات کا جائزہ لے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اصل صورتحال یہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے کے لیے الیکشن ملتوی کیسے کیے جاسکتے ہیں،

بینظیر بھٹو کی شہادت پر الیکشن صرف 40 دن آگے ہوئے تھے، احتجاج کے باعث الیکشن کمیشن کے دفاتر نذر آتش کردیئے گئے تھے، ملک بھر میں سانحہ احتجاج ہورہے تھے، الیکشن کیلئے سیاسی پختگی کی ضرورت ہے، سیاسی میچورٹی پر بھی ہدایات لے کر آئے۔انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سندھ میں ٹرین پر سفر کیا ہر جگہ سیلاب تھا، بلوچستان میں کئی جگہ ٹرین پیدل چلنے والوں کی رفتار سے چلتی ہے،

کوئٹہ ابھی تک ریلوے لائن سے منسلک نہیں ہوسکا، جہاں نکل و حرکت مشکل ہو وہاں الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلدی بازی میں لکھا گیا، الیکشن کمیشن کے پاس کوئی اتھارٹی یا قانون نہیں تھی کے الیکشن تاریخ کی توسیع کرے۔بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت (آج) بدھ کی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…