ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

عمران خان جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ پر تکیہ کئے بیٹھا ہے،مریم نواز لاہور ہائیکورٹ کے ججز بارے پھر بول پڑیں

datetime 26  مارچ‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ عمران خان جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ پر تکیہ کئے بیٹھا ہے،شیخ رشید کی گفتگو سنی ہے جو ان کے منہ سے بات سے نکل گئی ہے،واضح ہو گیا ہے پی ٹی آئی کی پوری سیاست تقرری کے گرد گھومتی ہے کہ کون سی تقرری کب ہو رہی ہے،

شیخ رشید کہہ رہے تھے کہ اکتوبر میں موجودہ چیف جسٹس چلے جائیں گے اوردوسرے آ جائیں گے، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ دیا عمران خان نے آئین توڑا ہے،جس شخص نے آئین توڑا ہے اسے بغیر سزا کے گھر جانے دیا، حکومت نے اپیل فائل نہیں کی کہ اسے آئین توڑنے کی سزا دی جائے،یہ حکومت کی کمزوری ہے، آج بھی کچھ نہیں بگڑا اس کی پٹیشن فائل ہونی چاہیے،جنرل (ر)باجو ہ نے کیا کہا ہے کہ عدلیہ میں بیگمات کے کہنے پر اور دباؤ میں فیصلے ہوتے ہیں، فین کلب ہے، یہ تو سنا تھا کہ قانون اندھا ہوتا ہے،انصاف اندھا ہوتا ہے لیکن پہلی دفعہ سنا اور دیکھا ہے کہ بیگمات کے کہنے پر بھی فیصلے ہوتے ہیں،جب پانامہ بنچ نے فیصلہ سنانا تھا، نواز شریف کو ان اہل کرنا تھا اس دن جسٹس کھوسہ، جسٹس ثاقب نثار اور بنچز میں شامل باقی ججز کے بچے اوربیویاں عدالت میں موجود تھے، انہیں فیصلے کا پہلے سے علم تھا،الیکشن کے علاوہ مسائل کا کوئی حل نہیں، میرے پاس لاہور ہائیکورٹ کے ججز کے بارے میں حقائق ہیں اگر میں یہاں بیان کر دوں تو بہت بڑا کرائسز ہو جائے گا، افسوس ہے وہ بات مجھے اپنے اندر رکھنی پڑ رہی ہے،ہر 5 سال بعد انتخابات ہونے چاہئیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جاتی امراء میں لائرز ونگ کے وکلاء سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ مریم نواز نے کہا کہ جب میری والدہ کا انتخاب تھا جس طرح آپ سب نے میرا بازو بن کر ساتھ دیا آپ میدان میں اترے دھاندلی کو روکا،

کارکنوں سے جو زیادتی ہو رہی تھی ان کو قانونی تحفظ دیا میں دل کی گہرائیوں سے آپ کی قدر دان ہوں۔ نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا جو بیانیہ ہے،نواز شریف سے جو زیادتیاں اور نا انصافیاں ہوں،ان کے لئے عدل کے جو علیحدہ معیار قائم کئے گئے اس کے خلاف آپ نے جو کردار کیا وہ لائق تحسین ہے، نواز شریف کے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لئے وکلاء نے جو کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔

نواز شریف جب بدنام زمانہ پانامہ کے عدالتی فیصلے کے بعد جی ٹی روڈ سے نکلے اس کے بعد جو وکلاء کنونشن ہوا،، اس میں یہ نعرہ تخلیق ہوا یہ جو کالا کوٹ ہے میاں تیرا ووٹ ہے اور اس نعرے نے تحریک کی شکل اختیار کی تھی۔ لیڈر شپ کی سطح پر آپ کو وہ توجہ نہیں دی گئی وہ رسائی نہیں دی جو آپ کا حق تھا لیکن اب روابط کو جاری رکھیں گے ان کو بڑھائیں گے،وکلاء کے ونگ کو مضبوط کریں گے

اور آپ کو وہ جگہ دیں جس کے آپ حقدار ہیں۔ مریم نوا زنے کہا کہ آپ آئین و قانون کو جانتے ہیں،حالات سے با خبر ہیں، آپ موجودہ حالات میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، پارٹی کے مددگار ہو سکتے ہیں،آپ سے استفادہ نہ کرنا پارٹی کا نقصان ہے،ہم اس خلاء کو پر کریں گے،میں آپ کے ساتھ مل کر بیٹھوں گی آپ کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی بحالی،ووٹ کو عز ت دو کی تحریک ہو، جو نا انصافیاں ہوں ان کے خلاف آواز بلند کرنی ہو،

حق اور قانون کے لئے آواز بلند کرنا ہو،عدلیہ کے لئے عدل کے لئے آواز بلند کرنا ہو اس میں وکلاء کا کردار قابل ستائش ہے لیکن آج پاکستان کو اس سے بڑھ کر آپ کی ضرورت ہے،نواز شریف جماعت کو ضرورت ہے، پاکستان کے جو حالات ہیں اس وقت جو بحران ہے اس صورتحال میں پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے،پاکستان آپ کو آواز دے رہا ہے۔مریم نواز نے کہا کہ اس ملک میں ترازو کے پلڑے برابر نہیں ہیں، میں ہمیشہ یہ کہتی ہوں پہلے ترازو کے پلڑے برابر کرو پھر انتخابات کراؤ،

ہم الیکشن سے نہیں ڈرتے،ہم سلیکٹ ہو کر نہیں آتے الیکٹ ہو کر آتے ہیں، جو سلیکٹ ہو کر آتاہے اس کو فکر ہونی چاہیے۔جلسے میں شیخ رشید کی گفتگو سنی ہے جو ان کے منہ سے بات سے نکل گئی ہے اس سے واضح ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی پوری سیاست تقرری کے گرد گھومتی ہے کہ کون سی تقرری کب ہو رہی ہے، انتخابات کی تاریخ اکتوبر میں دئیے جانے کے بارے میں وہ کہہ رہے تھے کہ اکتوبر میں موجودہ چیف جسٹس چلے جائیں گے اوردوسرے آ جائیں گے،اس سے اندازہ ہو گیا ہے کہ ان کی ساری سیاست تقرریوں کے ارگرد گھومتی ہے،

پہلے اسٹیبلشمنٹ کے کردار تھے جو اب جا چکے ہیں اب یہ جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ پر تکیہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں، پہلے انہوں نے جو لانگ مارچ کیا اس قت یہ مقصد تھا کہ آرمی چیف کی تقرری کو متنازعہ بنایا جائے یا اسے روکا جائے، ان کی سیاست بیساکھیوں کے اردگرد گھومتی ہے، سہولت کاروں کے ارگرد گھومتی ہے۔ایک سہولت کار چلے گئے ہیں، سہولت کارنے بھی کانوں کو ہاتھ لگایا،جنرل (ر)باجوہ کا انٹر ویو سنا ہے انہیں لانے والے کہہ رہے ہیں یہ ملک کے لئے خطرناک آدمی ہے، ا ن کی جو باقیات ہیں جو عدلیہ میں ہے اب یہ ان پر تکیہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی یہ نہیں دیکھا کہ ایک شخص قانون کو پاؤں کے نیچے روندے، عدلیہ اس کو کہے آؤ پیش ہو لیکن وہ شخص نہیں گیا، وہ اپنے گھر میں چھپا رہا کبھی پلاسٹر کبھی بیماریوں کابہانہ بنایا، جان کو خطرہ ہے اس کا بہانہ بنایا،لیکن جب گیا تو جتھے لے کر حملہ آورہوا،پاکستان کی تاریخ میں کب کسی نے ایسا دیکھا ہے کہ کسی شخص کو اتنی سہولت ملی ہوئی ہے، اب بھی نواز شریف کے مقابلے میں اس کو کسی نے انگلی نہیں لگائی،نواز شریف کے خلاف پانامہ کا کیس شروع کیا گیا حالانکہ اس میں کوئی ثبوت نہیں تھا، یہ جھوٹے مقدمات تھے،

اس میں کچھ نہ ملا تو اقامہ نکال کر لے آئے، یہ پوری دنیا کاواحد کیس ہے جس سے صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں عدل و انصاف کا سر شرم سے جھک گیا،  وزیر اعظم کو سزا دینے کے لئے بلیک لاء ڈکشنری نکال لی گئی اور ایکسپائر اقامہ میں فیصلہ دے کر تا حیات نا اہل کیا گیا۔مریم نواز نے کہا کہ جنرل (ر)باجو ہ نے کیا کہا ہے کہ عدلیہ میں بیگمات کے کہنے پر اور دباؤ میں فیصلے ہوتے ہیں، فین کلب ہے، یہ تو سنا تھا کہ قانون اندھا ہوتا ہے،انصاف اندھا ہوتا ہے لیکن پہلی دفعہ سنا اور دیکھا ہے کہ بیگمات کے کہنے پر بھی فیصلے ہوتے ہیں اس کا ثبوت پوری قوم نے دیکھا،

جس دن پانامہ بنچ نے فیصلہ سنانا تھا، نواز شریف کو ان اہل کرنا تھا اس دن جسٹس کھوسہ، جسٹس ثاقب نثار اور بنچز میں شامل باقی ججز کے بچے اوربیویاں عدالت میں موجود تھے، انہیں فیصلے کا پہلے سے علم تھا، ان کے فیس بک اورٹوئٹر اکاؤنت دیکھ لیں ان پر کچھ گھنٹے پہلے ہی خوشی کا اظہار کیا گیا تھا،جنرل (ر)باجوہ نے جو بات کی ہے وہ بالکل ٹھیک تھی، یہاں پر آئین و قانون کی بجائے ذاتی عنا د پر،بیگمات او ربچوں کے کہنے پر فیصلے ہو رہے تھے، آئین و قانون سے مذاق اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ مریم نواز نے کہا کہ وہ شخص عدالت نہیں جاتا چھپ کر بیٹھا ہے

ڈھٹائی کے ساتھ کھڑا ہے لیکن جب بھی عدالت جاتا ہے اس کو اس کو تھوک کے حساب سے ضمانت ملتی ہے، درجن درجن ضمانت کے فیصلے بغیر قلم رکے جاری ہوتے ہیں، ایک ایک پانچ منٹ کے اندر ضمانت ملتی ہے، نواز شریف کے ساتھ کیسز جھوٹے تھے لیکن کیا سلوک کیاگیا،ٹیرن کا کیس ہے جسے یہ نہ اگل سکتا ہے نہ نگل سکتا ہے، توشہ خانہ میں سب نے تحفے لئے ہوں گے لیکن یہ پہلا شخص ہے جس نے تحفے چوری کئے، ملک کے کسی سربراہ نے سیاستدان نے عہدیدار نے کبھی تحفہ چوری نہیں کیا۔ اس نے وزیر اعظم آفس کو استعمال کرتے ہوئے تحفے توشہ خانہ میں جمع کرانے کی بجائے گھر میں جمع کرائے،

بیس بیس کروڑ میں تحفہ بیچا اور پھر منی لانڈرنگ کی، ایک پراپرٹی ٹائیکون کے جہاز میں رکھ کر پیسے لائے گے، کس اکاؤنٹ میں وہ پیس گیا کسی کو پتہ نہیں ہے اس کو منی لانڈرنگ نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں، بیچنے کے بعد کچھ حصہ جمع کر ادیا،اس کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں تھا، اس کو ڈیکلئر نہیں کیاگیا، جب اس کو پتہ چلا کہ اس کے گلے میں احتساب کا پھندا ڈلنے جارہا ہے تو اس نے ڈیکلئر کیا اور، اگر ملک کے وزیر اعظم کو ایکسپائر اقامہ پر نکال سکتے ہیں تو توشہ خانہ تو سچا کیس ہے۔اگر فارن فنڈنگ کا کیس سچا نہ ہوتا تو یہ سانپ بن کر سات سال تک اس کے اوپر نہ بیٹھا ہوتا، اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے وہ کیس کھل نے نہیں دیا

حالانکہ اس میں اس کے ہاتھ رنگے ہوئے تھے،کوئی عدالت اس کا کچھ نہیں بیگاڑ سکتی، کوئی زور لگا کر اسے پیش نہیں کر سکتا، یہ جتھے لے کر عدالت پر حملہ ہو جاتا ہے۔ میں نے سو سے زائد پیشیاں بھگتیں، نواز شریف کی دو سے زائد جھوٹے کیس میں پیشیاں ہیں، ہم ایک دن بھی جتھہ نہیں لے کر گئے یہ جانتے ہوئے بھی کہ تمام جھوٹے مقدمات ہیں۔ فیصلہ غلط تھا صحیح تھا ہم نے اسے تسلیم کیا سرنڈر کیا جھوٹی سزائیں بھگتیں۔ اس کے معاملے میں پولیس عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کے لئے جاتی ہے وہاں پر آگے سے پولیس پرحملہ ہوتا ہے، پتھر مارے جاتے ہیں، پیٹرول بم پھینکے جاتے ہیں، پولیس والوں کے سر توڑے جاتے،

آئین و قانون کہاں سویا ہوا ہے،کیوں اس پر ایکشن نہیں ہو، باقیوں سے سوتیلے والا سلوک ہوتا ہے اس کے ساتھ لاڈلے والا سلوک ہوتا ہے،کون ہے جو آج بھی اسے تحفظ دے رہا ہے قوم کو یہ سوال پوچھنا چاہیے۔اگر اس کا دامن داغدار نہیں تو جواب دے کیوں چھپا ہوا ہے، اس نے قانون کو اپنے مقابلے پر رکھا ہوا ہے، ان سوالوں کو پوچھنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ انتخابات آگے ہوئے ہیں، ایک جمہوریت پسند کارکن ہونے کے ناطے میں سمجھتی ہوں انتخابات کے علاوہ پاکستان کا کوئی حل نہیں،ہر پانچ سال کے بعد انتخابات ہونے چاہئیں لیکن سیاسی استحکام ہونا چاہیے۔ ہم راہ فرار اختیار نہیں کررہے ہم انتخابات لڑیں گے اور جیتیں گے۔

آج اس کو آئین یاد آ گیا ہے اس وقت کیوں یاد نہیں آیا جب سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پانچ صفر سے ڈیکلئر کیا کہ تم آئین شکن ہو، تم پہلے سرٹیفائیڈ آئین توڑنے والے ہو۔سپریم کورٹ نے کہا کہ قاسم سوری نے کھلے عام آئین کی خلاف ورزی کی ہے، جو آئین توڑٹا ہے اس پر کون سی شق لگتی ہے اس پر آرٹیکل چھ لگتا ہے، نواز شریف کو ایکسپائراقامہ رکھنے پر سزا دیتے ہیں اور ساری زندگی کے لئے نا اہل کر دیتے ہیں، جو آئین کو توڑا گیا اس کی سزا کہاں ہے، آئین توڑنا کوئی چھوٹا جرم ہے،جس شخص نے آئین توڑا ہے اسے بغیر سزا کے گھر جانے دیا، یہ کبھی کسی ملک میں ہوا ہے، حکومت نے اپیل فائل نہیں کی کہ اسے آئین توڑنے کی سزا دی جائے،

یہ حکومت کی کمزوری ہے، آج بھی کچھ نہیں بگڑا اس کی پٹیشن فائل ہونی چاہیے۔سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہیے کہ آئین توڑنے والا کہا ں ہے اس کو کیوں جانے دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں آئین ری رائٹ ہوا ہے،پہلے تو سوال یہ بنتا ہے ایک شخص نے آئین و قانون کو جمہوریت کو اسمبلیوں کو سسٹم کو بچوں کاکھیل سمجھا ہوا ہے،اس شخص کے کے فیصلوں پر ملک کیسے چل سکتا ہے، اسمبلی توڑ دے الیکشن کرا دے تقرری کو متنازعہ کر دے انارکی پھیلا دے ریاست چپ کر تماشہ دیکھتی رہے۔ پرویز الٰہی اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے تھے، ان کے بیٹے مونس الٰہی کی ٹوئٹ سب نے پڑھی ہے، اس کے الفاظ مناسب الفاظ نہیں ہے ہیں جو یہاں کہوں، کیا حکومت ریاست اس کے کہنے پر چلے گی۔

پچیس ممبران اس کی جھولی میں ڈالنے کے لئے آئین کو ری رائٹ کیا گیا، وہاں سے کرائسز نے جنم لیا ہے،دو ججز کیس میں نوٹ لکھ کر بھیجتے ہیں اس پر چیف جسٹس موٹو لیتے ہیں، اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا اسمبلی ٹوٹی کیوں، انہیں بنچ سے الگ کر دیا گیا، آج تک وہ کرائسز چل رہا ہے، اس میں سہولت کاری شامل ہے۔ متنازہ سوموٹو،مظاہر علی اکبر نقوی اورجسٹس اعجاز الحسن کی وجہ سے کرائسز ہے، جج کے مالی معاملات کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس ہے،اسی جج کو بنچ نمبر ون میں ڈال دیا گیا ہے، اگر کوئی بات کرے تو توہین عدالت ہو جاتی ہے م جب عدل اور انصاف نہیں ملتا تب توہین عدالت ہوتی ہے، کرپٹ ججز کو تحفظ دیا جاتاہے، قوم کے سامنے ثبوت آ گئے ہیں

اس کے لئے اور کیا ثبوت چاہئیں، جو آڈیو سامنے آئی ہے، فواد چوہدری کہہ رہے ہیں ٹرک کھڑ اکر دیں،سپریم کورٹ میں ہمارے بندے بیٹھے ہیں، پرویز الٰہی کیس اپنے بنچ میں لگانے کاکہہ رہے ہیں، اس ناانصافی کے لئے کوئی آوا زاٹھائے تو توہین عدالت لگا دیں،عدل کی انصاف عدلیہ کی عزت اس کے فیصلوں سے ہے، ججز کے فیصلے بولتے ہیں لیکن یہاں پر تو بیگمات بول رہی ہیں بچے بول رہے ہیں،کبھی اس سے برا حال نہیں دیکھا مڈکٹیٹر شپ میں بھی ایسا نہیں ہو ا۔انہوں نے کہا کہ اس شخص کے منہ سے آئین کی بات اچھی نہیں لگتی، کہتا ہے نوے روز مین انتخابات ہوں، اگر پنجاب میں (ن) لیگ جیت جاتی ہے تو ذہنی طور پر بیمار شخص جو فتنہ کرنے لئے لانچ کیا گیا کیا وہ ہماری جیت کے فیصلے کو مان لے گا،

اس کے بعد خیبر پختوانخواہ میں اگر یہ جیت جاتا ہے تو کون گارنٹی دے گا یہ اسمبلی نہیں توڑے گا،پنجاب میں یہ نہیں کہے گا کہ دھاندلی نہیں ہوئی ہے، یہ کہے گا شہباز شریف وفاق میں وزیر اعظم تھا دھاندلی ہو گئی ہے، محسن نقوی جس کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ اس نے میرے خلاف سازش کی، مجھے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اگر الیکشن ہوگا تو کون گارنٹی دے گا یہ کہے گا بالکل صاف اور شفاف انتخابات ہوئے ہیں،آدھے ملک میں نگران حکومت ہو گی اور آدھے میں نہیں ہو گی،کیا اب روایت ہو گی کہ ایک بیوقو ف شخص کے کہنے اور منشیات زدہ ذہنیت کے کہنے پر ہر ساڑھے چار سال بعد پنجاب اور خیبر پختوانخواہ میں انتخابات ہوں گے اور پانچ سال میں وفاق ار باقی دو صوبوں کا الیکشن ہوگا،  یہ آئین سے غداری نہیں ہے اس کا جواب کون دے گا،

ہر پانچ سال بعد یہی ڈرامہ ہوا کرے گا، اس کو لانچ کرنے والی غیر ملکی طاقتوں کا یہی مقصد ہے کہ ملک میں انارکی پھیلے اورپاکستان ترقی نہ کر سکے۔ جب سے یہ سیاست میں آیا ہے پاکستان نے سکھ کا سانس نہیں لیا، ملک تنزلی کی جانب جارہا ہے۔ سوال 2022سے نہیں بلکہ2017،2018سے شروع ہوگا یہ ملک کے زوال کا ذمہ دار ہے، اس کے کہنے پر ریاست نہیں چل سکتی، ریاست اس کو پوری قوت سے روکے ورنہ ملک غلط ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء آئین کے محافظ ہیں، ہماری آنے والی نسلوں کی بقاء کے محافظ ہیں،غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کر دیں، سہولت کاری سے انکار کر دی، اگر کہیں سہولت کاری ہو رہی ہے اس پر مذمت کریں۔ مریم نواز نے کہا کہ میرے پاس لاہور ہائیکورٹ کے ججز کے بارے میں حقائق ہیں اگر میں یہاں بیان کر دوں تو بہت بڑا کرائسز ہو جائے گا، افسوس ہے وہ بات مجھے اپنے اندر رکھنی پڑ رہی ہے، وہ قوم کے سامنے آنی چاہیے، کس نے کہا کس کو کہا آپ کی بیٹی نہیں ہے، بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں وہاں ہمیں سپورٹ کریں، سہولت کاری اس ملک کی تباہی کا دوسرا نام ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…