لاہور(این این آئی) وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و قانونی امور عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ یہاں دو نظام عدل ہیں ایک عمران خان کے لئے ہے اور باقی دوسروں لوگوں کے لئے دوسرا ہے، جو قانون قاضی فائز عیسی پر اور ان کی اہلیہ پر لاگو ہوا وہی کسی دوسرے جج بھی پر بھی لاگو ہوگا،ملک کے جتنے مسائل ہیں چاہے وہ معاشی مسائل ہوں،
بیرزگاری ہو،غربت ہو بھوک ہو مہنگائی ہو یہ نظام عدل کی وجہ سے ہیں،یہ نا انصافی کے جو فیصلے ہوتے ہیں اس سے ترقی کے سفر کو روکا جاتا ہے اس وجہ سے ہیں،ایک کو لاڈلہ ڈیکلئر اور ایک کو کٹہرے میں سزا دیدی جاتی ہے، لاڈلے کو گھر بیٹھے ضمانت مل جاتی ہے یہ سہولت کاری کی انتہاہے اس سے بھی وہ سلوک کریں جو ہمارے ساتھ کرتے ہیں،بار بار سہولت کاری کیسے چلے گی،برداشت کی حد ہوتی ہے، ہم قانونی راستہ بھی اور سیاسی راستہ بھی اختیار کریں گے، تمام سپریم کورٹ کے ججز اپنے اثاثے سامنے لے آئیں اگر میرے دادا کے اثاثوں سے کم کسی کے اثاثوں ہوں گے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ پارٹی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ عمران خان کے اپنے گھر میں چور اور ڈاکوموجود ہیں، یہ بزدار کے ذریعے فرح گوگی کے ذریعے اربوں روپے لوٹتے رہے ہیں،اب ان کو نوٹس دیا گیا ہے تو گھریلو خاتون کہا جارہا ہے، ان کی پشت پناہی تو ٹھیک ہے بنتی ہے، جو بھی چوری چکاری اور ڈاکے ڈالے ہوں فیملی ممبر ان کے لئے وکلاء کا بندوبست کر رہے ہیں اور ان کے تحفظ کے لئے کھل کر سامنے آئے ہیں، لیکن آپ فرح گوگی کے تحفظ کے لئے بھی کھل کر سامنے آئے کہ وہ پبلک آفس ہولڈ ر نہیں تھیں۔انہوں نے کہاکہ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایک سابق وزیر اعظم ایک ایسے مجرم کو ساتھ بٹھائے جس نے اعتراف کیا کہ اس نے جعلی دستاویزات بنا کر ڈار برادران کے ذریعے نوکری حاصل کی۔
یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اس نے ٹھیکیداروں سے کمیشن لے کر ڈار برادران تک پہنچایا تھا۔ عمران خان ویسے تو کہتے ہیں اراکین اسمبلی کو ڈویلپمنٹ فنڈز نہیں دینے چاہئیں، ان کا کام ترقیاتی منصوبے بنانا نہیں بلکہ قانون سازی ہے لیکن آپ کے لوگ جو کمیشن بنتا ہے وہ بھی پہنچاتے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ بیٹھنے والا بند ہ کہہ رہا ہے اسے الٹا لٹکایا جاتا تھا سیدھا لٹکایا جاتا ہے،
یہ سیدھا لٹکانا کیا ہوتا ہے، ان کے پاس اسکرپٹ بھی ٹھیک نہیں تھا اور یہ کسی تھرڈ گریڈ مووی کا اسکرپٹ لگتا ہے،عجیب منطق ہے کہ ایک شخص ساری بات بتا رہا ہے اور عمران خان کہہ رہے ہیں کہ جو کپڑے اتاے تھے وہ بھی بتاؤ،عمران خان اپنے ہر پارٹی ممبر کے کپڑے اتارنے کے کیوں اتنے شوقین ہیں،وہ نہیں بتا رہا جس کے ساتھ ہوا ہے لیکن عمران خان کہہ رہے ہیں بتاؤ تمہارے کپڑے اتارے تھے۔
پریس کانفرنس میں ایک ولن کا منظر نامہ پیش کیا گیا ہے کہ جب صاحب آتے تھے تو خاموش ہو جاتے تھے، شکر ہے بگل نہیں بچتا تھا کہ بڑے صاحب آ گئے،اس قوم سے مذاق کرنا چھوڑ دیں، آپ کو تھرڈ گریڈ فلم کا اسکرپٹ دیا گیا ہے۔عمران خان نے اپنی بیٹی والے کیس میں تاخیر حربے استعمال کئے،توشہ خانہ کیس میں یہی کیا اور فرد جرم عائد نہیں ہونے دی،آپ کی پارٹی کے جن لوگوں پر رشوت لینے اور دینے کا الزام ہے،
جنہوں نے جعلی دستاویزات کے ذریعے نوکری حاصل کی انہیں دائیں بائیں بٹھا کر پوری قوم کے سامنے بے شرمی کے ساتھ اس کا دفاع کر رہے ہیں،یہاں دو نظام عدل ہیں ایک عمران خان کے لئے ہے اور باقی دوسروں لوگوں کے لئے دوسرا ہے۔ میں مڈل کلاس آدمی ہوں مجھے تو یہ سہولت میسر نہیں کہ لاہور کینٹ میں ڈھائی کروڑ روپے میں فی کنال پلاٹ مل جائے،چالیس کروڑ کا پلات حاضر سروس جج کو دس کروڑ میں ملتا ہے،
میرے پاس رجسٹری سمیت سارے کاغذات ہیں، یہ پلاٹ ایک دن پہلے خریدا گیا اور پھر ایک دن بعد دوسرا شخص خرید رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ کسی طرف سے ادائیگی کی گئی ہے۔آپ نے قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو تو کٹہرے میں کھڑا کیا، انہیں پورے احتساب کے عمل سے گزارا ہے، قاضی فائز عیسی پر اور اور آپ پر کوئی اور قانون لاگو ہو۔یہ کہا گیا کہ میں اپنی صفائی چیف جسٹس کو دوں گا، یہ خاندانی ذرائع کیا ہوتے ہیں جن کے ذریعے ٹی وی چینل پر وضاحت دی جارہی ہے،
آپ کھل کر سامنے آئیں، یہ کہا گیا کہ ہم چیف جسٹس کو چیمبر میں صفائی دیں گے آپ وہاں کیوں صفائی دیں گے،آپ صفائی سپریم جوڈیشل کونسل میں دیں۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں تمام ججز اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کو خطوط لکھے گئے ہیں کہ اس کی سماعت ہونی چاہیے اوراس معاملے پر بات ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے متفقہ فیصلے کے بعد ہم نے دو جج صاحبان پر تحریر ی اعتراض کر دیا ہے،۔ غلام محمود ڈوگر کا کیس تھا اس میں الیکشن کا معاملہ کہاں سے آ گیا ہے،
ان ججوں کا ذہن سامنے آ یا ہے، اس لئے ہم نے اعتراض کیا کہ یہ دو ججز نہ بیٹھیں اورفل کورٹ بنا دیں، انصاف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے۔ایک طرف آپ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکال دیں اور دوسری طرف بیٹی چھپانے پر بھی نہ نکالیں، یہ دوہرا نظام عدل چل نہیں سکتا۔ ملک کے جتنے مسائل ہیں چاہے وہ معاشی مسائل ہوں،بیرزگاری ہو،غربت ہو بھوک ہو مہنگائی ہو یہ نظام عدل کی وجہ سے ہیں یہ نا انصافی کے جو فیصلے ہوتے ہیں جو ترقی کے سفر کو روکا جاتا ہے اس وجہ سے ہیں،
ایک کو لاڈلہ ڈیکلئر اور ایک کو کٹہرے میں سزا دیدی جاتی ہے،جسٹس اعجاز الاحسن ماضی میں کئے گئے فیصلوں میں اپنا ذہن بتا چکے ہیں، وہ نواز شریف کو پارٹی سربراہ کے عہدے سے ہٹانے کے کیس میں بھی جج تھے۔انہوں نے کہا کہ عثمان ڈار کے پرسنل اسسٹنٹ کا بیان آیا ہے کہ اس نے پچاس لاکھ روپے رشوت دی ہے،جس شخص نے جعلی دستاویزات کے ذریعے کسی کا حق مارا ہے آپ اسے ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے عمران خان کہتے تھے ا مریکی سازش تھی
پھر کہا امریکی سازش نہیں تھی کیونکہ بیان دینا عمران خان کی مرضٗ ہے، اتنی جھوٹ منافقت مکر و فریب پاکستان کی سیاست میں کبھی نہیں دیکھا،یہ شخص آنے والی والے نسلوں کو تباہ کر رہاہے، یہ کیسا انسان ہے جو نوجوان نسل کو گمراہ کر رہا ہے کہ والدین کی مت مانو اور جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے منافقت کرتا ہے، یہ عدلیہ کو بھی آنکھیں دکھاتا ہے لیکن کوئی اس سے باز پرس نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بالکل چاہتے ہیں آئین و قانون پاسداری ہے لیکن یہاں آئین دوبارہ لکھا گیا جب پنجاب میں ہماری حکومت ختم ہوئی،
آپ ووٹ دیں گے تو آپ کا ووٹ گنتی میں شمار نہیں کیا جائے گااور نا اہل بھی کر دیا گیا، عدلیہ ایگزیکٹو کا کردار بھی خود لے، لیجسلیٹو کا کردار بھی لے لے اور کچھ لوگوں کو سہولت بھی دے اور پھر توقع رکھے ان کے احکامات مانے جائیں گے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔پارٹی سربراہ کی ہدایات کے حوالے سے دو مختلف تشریح کی گئی ہیں۔ بار بار سہولت کاری کیسے چلے گی،مجھے کہا جاتا ہے کہ بس کر دیں نہ بولیں لیکن میں خوفزدہ نہیں ہوں گاایک زبان تو ہے کیا اس کو بھی تالہ لگا دیں تو جینے کا کوئی حق نہیں، کوئی طاقتور آ ئے اوراپنی مرضی مسلط کر جائے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جس جج کے بارے میں باتیں کی جارہی ہیں ان کے دو بیٹے لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کر رہے ہیں، کوئی جج ان کو انکار نہیں کرتا، انہوں نے چار سال میں کروڑوں روپے کی پریکٹس ہے، ان کی کلائنٹس کی فہرست دیکھیں، ان کے والد سپریم کورٹ کے جج ہیں اس لئے، باقی ان کی کیا اہلیت ہے، میں نے اپنے گھر میں جج شپ دیکھی ہے لیکن دھکے کھائے ہیں۔جو قانون قاضی فائز عیسی پر لاگو ہے وہ ہر کسی پر ہوگا، یہاں کچھ لوگوں کے لئے دوہرانظام عدل اور سہولت کاری حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مجرموں کو
رشوت خوروں اورجعلسازوں کو ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کرتا ہے اور خطاب کرتا ہے، ہماری برداشت کی بھی حد ہے،یہ اب یہ زیادہ دیر چلے گا، اس پر قانونی راستہ بھی اور سیاسی راستہ بھی اختیار کریں گے۔عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ہم الیکشن کے لئے تیار ہیں مریم نواز کی قیادت میں ہماری بڑی اچھی مہم چل رہی ہے۔دو ججز پر اعتراض اور فل بنچ کا مسئلہ اس لئے ہے کہ دو جج صاحبان ایک کیس کا نوٹس لیتے ہیں،غلام محمود ڈوگر کے ماضی کے بارے میں کون نہیں جانتا،اس کے کیس میں الیکشن کمیشن کو بلا لیا جاتا ہے اور الیکشن کی تاریخ مانگ لی جاتی ہے،
کیا متعلقہ وزارتوں سے پوچھا گیا جنہوں نے معاونت کرنی ہے کہ وہ اس کے لئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں تین سینئر ترین جج بنچ بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں،یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کچھ لوگوں کی سہولت کاری کرتے ہیں جن کی کوئی باز پرس نہیں ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی کی جج صاحب سے گفتگو کی آڈیو آئی ہے، ہم سمجھتے ہیں اب وہ اس عہدے کے اہل نہیں اور خود کو احتساب کے لئے پیش کر دیں۔ آئین کی تشریح فل کورٹ کرے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہیں اور انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ
ہم نظام عدل کی بات اس لئے کرتے ہیں کہ جسٹس (ر) ثاقب نثار کا دور تھا اس وقت کیس آیا کہ نیازی آف شور سروسز آپ کی کمپنی ہے پر آپ کے نام کاغذ کوئی نہیں ہے، جہانگیر ترین کا کیس لگا انہیں سزا دیدی گئی لیکن لاڈلے کو کلین چٹ مل گئی، لاڈلے سے عبوری ضمانت کے کیس میں پوچھا جاتا ہے آپ کب تشریف لا رہے ہیں، اگر میرے جیسا عام آدمی ہوتا تو پولیس گھر کی دیواریں پھلانگ کر گریبان سے پکڑ لیتی۔یہ لاڈلے کیلئے سہولت کاری نہیں تو اور کیا ہے، اسے ضمانت کے لئے مہلت دی جاتی ہے، فارن فنڈنگ میں ضمانت خارج ہونے والی ہے
لیکن فیصلہ آ جاتا ہے اس کو گرفتار نہ کریں، ہماری سال سال ضمانت کی درخواستیں نہیں سنی جاتی، بلال قدوائی جو امریکہ سے پڑھ کر آیا اس کی درخواست نہیں سنی گئی،احد چیمہ تین سال قید رہا لیکن ایک لاڈلے کو گھر بیٹھے ضمانت مل جاتی ہے یہ سہولت کاری کی انتہائی ہے اس سے بھی وہ سلوک کریں جو ہمارے ساتھ کرتے ہیں،آپ اس سے ڈرتے ہیں، وہ ہینڈ سم بھی ہے کیونکہ وہ کرکٹ کھیلتا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے دادا کاجوہر ٹاؤن میں گھر تھا جو وہ چاربچوں میں تقسیم کر گئے،میں آج بھی کرائے کے گھر رہتا ہوں اور اس کا تین لاکھ کرایہ ہے،
تمام سپریم کورٹ کے ججز اپنے اثاثے سامنے لے آئیں اگر میرے دادا کے اثاثوں سے کم کسی کے اثاثوں ہوں گے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا اور ان ججز صاحبان سے بھی معافی مانگوں گا۔ انہوں نے کہا کہ بریف کیس کی باتیں کی جاتی ہیں کس کو بریف کیس دیا اور کس کے لئے دیا گیا ثبوت تو سامنے لائے جائیں۔ میرے داد ا نے جج کی کرسی پر رہتے ہوئے اپنے تین بیٹوں سے کہا کہ آپ پریکٹس نہیں کریں گے۔اب تیسری نسل میں آکر میں نے وکالت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بتایا جائے ایک گھر چالیس کروڑ ہے اور وہ آپ کو تیس کروڑ کی رعایت دے کر دس کروڑ میں مل جائے ایسا ہو سکتا ہے، کون دوست ہے جو ایسی رعایت دیتا ہے، دعا ہے ہمیں بھی ایسا دوست مل جائے جو چالیس کروڑ والی پراپرٹی دس کروڑ میں دیدے۔