ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مذاکرات ان کی ضرورت ہے ہماری نہیں، ن لیگ نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا

datetime 3  دسمبر‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی مشروط پیشکش پر دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات پیشگی شرط کے بغیر ہوں گے،دھمکیاں بہتان گالیاں اور مذاکرات اکٹھے نہیں چل سکتے،مذاکرات کا ماحول بنانا پڑتا ہے، مذاکرات ان کی ضرورت ہے ہماری ضرورت نہیں،

تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر معاملہ پی ڈی ایم میں جائے گا اور وہیں حتمی فیصلہ ہونا ہے، اگر چار صوبوں کا حکمران ایڈونچر کرنا چاہتا ہے تو کر لے،ہم راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کریں گے یہ بھول جائیں کہ ہم ان کا بازو پکڑیں گے، روکنے کی کوشش کریں گے، اگر یہ اسمبلیاں توڑنا چاہتے ہیں تو توڑ لیں ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے،اگر آپ نے اسمبلی توڑی تو بے آسرا آپ نے ہونا ہے، دو صوبائی حکومتوں اوردو ریاستی حکومتوں پر آپ کاخرچہ چلتا ہے، آگر آپ آئینی بحران پیدا کریں گے تو ہم آپ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے، ان شا اللہ ملک میں کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا، جو بھی ہوگا آئین و قانون کی پیروی کی جائے گی، سندھ،بلوچستان کی اسمبلی اور قومی اسمبلی موجود رہے گی۔ ماڈل ٹاؤن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدار ت پارٹی کی سینئر قیادت کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں عمران خان کی مشروط مذاکرات کی پیشکش کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، عطا اللہ تارڑ اور ملک محمد احمد خان کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دی۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عمران خان نے مذاکرات کی جو پیشکش کی ہے اس کا حتمی فیصلہ پی ڈی ایم اتحادی مل کر کریں گے۔ عمران خان نے جو دھمکی آمیز پیشکش کی ہے اس پر بات کرنے سے پہلے ماضی میں جھانکنا ضروری ہے۔

جب موجودہ حکومت کاپہلا قومی اجلاس کاہوا تھا تو اس وقت کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی کیونکہ ملکی معیشت کو مزید ہچکولے نہیں ملنے چاہئیں، یہ پیشکش متحدہ اپوزیشن نے دی تھی لیکن عمران اور ان کے ساتھیوں نے اس کا مذاق بنایا،تماشہ اڑایا گیا تھا اور اس کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، اس کے بعد یہ پونے چار برس وفاق میں حکمران رہے،

فیٹف کے معاملے اور دیگر حسا س معاملوں پر قانون سازی اورملکی مفادات کی بات آئی تو ہم نے اس وقت کی حکومت کے ساتھ تعاون کیا لیکن ہمیں ہر بار طعنے سننے کو ملے اور این آر او کا طعنہ دیا گیا حالانکہ عمران خان این آر او دینے کے قابل ہی نہیں تھے،موصوف کا حال یہ تھا ان میں نفرت اتنی بھری ہوئی تھی کہ یہ پہلا وزیر اعظم تھا جو نشستیں پھلانگ کر اپنی نشست پر پہنچتا تھا تاکہ اپوزیشن سے آنکھیں نہ ملائی جا سکیں اور سلام دعا کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،

پونے چار سال اس نے کسی سے سلام لیا نہ دیکھنا گواراہ کیا، اس میں عجیب فرعویت تھی،ایسی فرعویت نہ کبھی دیکھی تھی نہ سنی تھی،اس ملک میں مارشل لاء بھی رہے ہیں لیکن اس نے سب کے ریکارڈ توڑ دئیے۔ ملک میں آئینی جمہوری تبدیلی سے اس کا دور ختم ہوا تب سے عمران خان، ان کے سہولت کار اور ساتھیوں نے سازشیں شروع کیں لیکن انہیں ہر بار ناکامی ہوئی،جتنی دھمکیاں دی ہیں سب گیدڑ بھبھکیاں ثابت ہوئی ہیں، اس میں ہماری کوئی مہارت نہیں بلکہ یہ قدرت کا وبال ہے،

جو کسی کی پگڑی اچھالے خود نالائق اورکرپٹ بھی ہو ہر برائی اپنے اندر موجود ہے لیکن انہیں مخالفین پر عائد کر دے تو ایسا شخص قدرت کے غضب کا شکار ہوتا ہے،عمران خان،سہولت کار اور ان کے ساتھی مکافات عمل کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ان کے ساتھ ماصی میں بھی غیر رسمی روابط ہوئے ہیں اورایک سے زائد بار ہویئے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ روابط بھی خود کرتے ہیں اور بتاتے ہوئے شرماتے ہیں اور بتانا گوارہ نہیں کرتے، اس وقت بھی ان کے دوستوں کو کہا تھاکہ فیصلہ پی ڈی ایم نے کرنا ہے،

مذاکرات کبھی مشروط نہیں ہوتے، اگر پہلے شرائط عائد کردیں تو مذاکرات کیسے ہوں گے،یکطرفہ ٹریفک نہیں چل سکتی یہ آپ کا ایجنڈا ہے، اگر پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا تو ان کا اپنا ایجنڈا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بعض اتحادیوں کو شدید تحفظات ہیں کہ ان سے بات نہیں کرنی او فیس سیونگ نہیں دینی۔ لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کاعمل سیاست کا حصہ ہے لیکن ہر بات کا سلیقہ ہوتا ہے اگر عمران خان واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں دو تین باتین سمجھ آ جانی چاہئیں،دھمکیاں بہتان گالیاں اور مذاکرات اکٹھے نہیں چل سکتے مذاکرات کا ماحول بنانا پڑتا ہے،

مذاکرات ان کی ضرورت ہے ہماری ضرورت نہیں، ان کے لوگ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم اتحادی انتخابات سے ڈرتے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے اس کو اپنے ذہن سے نکال دیں، ہم نے پہلی بار انتخاب نہیں لڑنا، جب بھی اور جہاں بھی انتخاب ہوگا ضرور لڑا جائے گا، گزارش یہ ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں بات بھی کر سکتے ہیں قدم بھی اٹھا سکتے ہیں لیکن اس کے لئے پہلے اتحادیوں سے بات ہو گی۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا سوچا سمجھا موقف ہے کہ اسمبلیاں قانون سازی اور گورننس کے لئے بنتی ہیں توڑنے پھوڑنے کے لئے نہیں بنتی،ہر اسمبلی کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے

یہ ہمارا آج کا موقف نہیں ہے بلکہ بہت پہلے کا موقف ہے، اگر چار صوبوں کا حکمران ایڈونچر کرنا چاہتا ہے تو کر لے،ہم راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کریں گے یہ بھول جائیں کہ ہم ان کا بازو پکڑیں گے، روکنے کی کوشش کریں گے، اگر یہ اسمبلیاں توڑنا چاہتے ہیں تو توڑ لیں ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے،آپ لوگوں کے مینڈیٹ کا مذاق اڑانے سے گریز کریں، یہ ملک کا وقت او رتوانائی صائع کرنے کے مترادف ہے، اسمبلیوں کو مدت پوری کرنی چاہیے اور انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔ اگر آپ نے اسمبلی توڑی تو بے آسرا آپ نے ہونا ہے، دو صوبائی حکومتوں اوردو ریاستی حکومتوں پر آپ کاخرچہ چلتا ہے،

لانگ مارچ اور جلسے انہیں کے اخراجات سے سجاتے ہیں آپ اسلام آباد نہیں آتے اور پناہ بھی وہاں لیتے ہیں جہاں پر آپ کی حکومتیں ہیں، آپ اچھی طرح سوچ لیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بات چیت کرنی ہے تو ڈرانے کی ضرورت نہیں،باضابطہ رابطہ کریں ہم اسے پی ڈی ایم کی میز پر لے کر جائیں گے، اگر آپ سنجیدہ بات کریں گے تو سنجیدہ جواب دیں گے، آگر آپ آئینی بحران پیدا کریں گے تو ہم آپ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے، ان شا اللہ ملک میں کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا، جو بھی ہوگا آئین و قانون کی پیروی کی جائے گی۔ سندھ،بلوچستان کی اسمبلی اور قومی اسمبلی موجود رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہر بار ان کا یہی کام ہے کہ اسمبلیوں میں آتے ہیں تو استعفے پھینک جاتے ہیں، ہم انہیں بچاکر رکھتے ہیں،ان کو سیاست کب آئے گی،لوگوں کے ووٹ کا مذاق اڑاتے ہیں، ہم ابھی بھی ان کے استعفے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ عمران خان کو مشورہ ہے اپنے اندر سنجیدگی پیدا کریں گہرائی پیدا کریں،آپ سہولتوں کار وں کے ساتھ مل کر کھیلتے رہے ہیں آپ نے سیاست میں یہی گند کیا ہے، پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا فیصلہ نہیں بتایا، عمران خان نے بات کی ہے اس پر مسلم لیگ (ن) کا نقطہ نظر سامنے رکھا ہے،فیصلے کااختیار پی ڈی ایم کے پاس ہے۔

عمران خان اپنا لب و لہجہ ٹھیک کریں بات کرنا سیکھیں بات کی پیشکش کرنا سیکھیں، انہوں نے جو جال پھینکا ہے اس میں انہوں نے خود ہی پھنسنا ہے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہمیں کہیں سے تقویت نہیں ملی،طاقت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے جہاں تک دنیاوی بات ہے تو وہ نواز شریف ہے۔انہوں نے کسی تیسری قوت کی بات چیت کے لئے مداخلت کے بارے سوال کے جواب میں کہا کہ پی ڈی ایم میں سب تجربہ کار موجود ہیں ہم نے ماضی میں مذاکرات کئے ہیں اور گھمبیر مسائل کو حل کیا ہے،  تیسرے کی مداخلت کی ضرورت ہی نہیں ہم سب خود ہی معاملات حل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے عمران خان کے الزامات پر فل کورٹ کمیشن کے حوالے سے کہا کہ اس حوالے سے وزیر اعظم کی جانب سے معزز ادارے کو لکھا گیا ہے فیصلہ اس نے کرنا ہے۔ انہوں نے معاشی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ یہ کیا دھرا عمران خان کی نالائقیوں اور کھلنڈرے ساتھیوں کا ہے جنہیں ریاستی امور کا تجربہ نہیں تھا، ان کا ایک ہی مشن تھا کہ مقدمات بناؤ، ایک کروڑنوکریوں اور پچاس لاکھ مکانات کا جھوٹا بیانیہ بناؤ، انہوں نے جو دعوے کئے تھے ایک فیصد بھی پورے نہیں ہوئے، ہم آئی ایم ایف کے ساتھ ان کی چھوڑی ہوئی ڈیل کو مکمل کرنے جارہے ہیں بات چیت کر رہے ہیں،

لیکن انہوں نے یہاں بھی سازش کی اور کہا کہ اس معاملے کو خراب کرو، ان کی سوچ یہ ہے کہ ہم نے اقتدار میں ہونا تھا تو ملک ہے، یہ ملک کو سری لنکا کی صورتحال میں دھکیل رہے تھے، معلوم نہیں ان کے دماغ پرکن شیاطین نے قبضہ کیا ہوا ہے، اگر ہم حکمران نہیں ہے تو بائیس کروڑ عوام کا ملک جہاں مرضی چلا جائے۔، اب ان کا جھوٹ کا چورن نہیں بکنا، یہ بائیس کروڑ کا ملک ہے اسے بد قسمت ملک نہ بننے دیں۔آج ایک ایک ادارہ چلانا مشکل ہے لیکن یہ ٹانگے کھینچنے کا دھندا کرتے ہیں، آج یہ کہتے ہیں قبل از وقت انتخابات کر ادیں، پہلے ہم غدار تھے امپورٹڈ تھے، ان کے سائفر کا بیانیے کے پرخچے اڑ گئے،

ان کی نظر میں سیاست کھیل تماشہ ہے لیکن ہم اسے جہاد سمجھ کر کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک کی معیشت کو درست کرنے کیلئے سیاسی استحکام چاہے اسی وجہ سے عمران خان چاہتا ہے سیاسی استحکام نہ آئے۔انہوں نے کہا کہ گڑرھے مردے اکھاڑیں اور ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے کی بجائے م پاکستان کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ چار سال کی بربادی اس کی ہے اور یہ اس دن شروع ہوئی تھی جب غیر قانونی غیر آئینی طو رپر سازش کے ذریعے منتخب حکومت کو اکھاڑا گیا تھا، اس کے سپریم کمانڈر کو نا اہل کیا گیا،یہ اس سازش کا پیکج تھا جو2010ء میں پراجیکٹ عمران خان کی صورت میں لانچ کی گئی تھی

لیکن اس کا خاتمہ قریب ہے۔وزیر داخلہ رانا ثنا ا للہ نے کہا کہ ہم سیاست دان ہیں اور سیاستدان کبھی بھی مذاکرات سے بیٹھنے سے انکاری نہیں ہوتا،یہ واحد سیاستدان جو ملک پر مسلط ہوا ہے اورملک و قوم کی بد قسمتی ہے کہ پونے چار سال اس نے اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ تک نہیں ملایا، جب پلوامہ کا وقعہ ہوا تھا ہر جماعت سے پانچ پانچ سینئر لوگ ڈیڑھ گھنٹہ تک اس کا انتظار کرتے رہے،عمران خان اس وقت وزیر اعظم تھے اور پارلیمانی عمارت میں موجود تھے۔اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اسرار کرتے رہے کہ ساری اپوزیشن بیٹھی ہے میٹنگ آپ کی صدارت میں ہونی ہے ہم نے بریف کرنا ہے اس سے وقومی یکجہتی کا پیغام جائے گا

لیکن یہ شخص نہیں مانا، اس کا شروع دن سے یہی رویہ رہا ہے۔ ہمیں دھمکی آمیز مذاکرات کی پیشکش نہ کرے، اس نے دھمکیاں دے کر دیکھ لی ہیں، یہ اسٹیبلشمنٹ کو دھمکیاں دے کر بلیک میل کر کے انتخابات کی تاریخ لینا چاہتا تھا لیکن نہیں لے سکے، اسی طرہ ہم سے لینا چاہتا ہے لیکن نہیں لے سکے گا، اس کا ایک سیاسی طریقہ ہے بات کرے ہم وہ معاملہ پی ڈی ایم میں لے کر جائیں گے اور وہاں فیصلہ کریں گے،مشروط بات نہیں ہو سکتی، غیر مشروط طو رپر بیٹھے، اس نے اب بھی مشروط مذاکرات کی کی ہے اور ساتھ دھمکی دی ہے یہ قابل قبول نہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جس تیسری قوت کی بات کر رہے ہیں اسے یہ تین ماہ سے گالیاں دے رہا کہ یہ درمیان میں پڑیں اور انتخابات کی تاریخ لے کر دیں،اتنا ہونے کے باوجود تیسری قوت نے دخل نہیں دیا اور اپنے فیصلے پر قائم ہیں کہ ادارے نے اے پولیٹیکل ہونا ہے اور جو آئین میں درج ہے اس کے مطابق ہوگا،

اب وہ آگے پیچھے نہیں ہوں گے۔عمران خان کا یہ خیال تھا کہ کہ راولپنڈی میں عوام کا سمندر ہوگا، بیس پچیس لاکھ لوگ جب راولپنڈی میں آجائیں گے میں اس وقت بات کروں گاکہ اسلام آباد کی طرف جاؤں یا انہیں معاف کروں گا،جب اس نے جلسے کا فضائی جائزہ لیا تو اس کے کانوں سے دھواں نکل آیا، اس نے جتنے لاکھ لوگ کہے تھے اتنے ہزار بھی نہیں آئے تب اس نے فرسٹیشن میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ معاشی حالا ت پیدا نہیں کئے بلکہ اس نے پیدا کئے،اس نے آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلا ورزی کی اوربحران کوبڑھایا، ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ کے کنارے پر جا چکا تھا لیکن ہم نے سے سنبھالا ہے، عوام کو ریلیف دینے کا مرحلہ ابھی شروع نہیں کر سکے جو عنقریب کریں گے، معیشت بھی بد حالی سے باہر آئے گی،جوچار سال سے معاشی تباہی شروع ہوئی ہم اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…