اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی اور کالم نگار حامد میر روزنامہ جنگ میں اپنے آج کےکالم میں لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر جنرل باجوہ نے نہیں شہباز شریف نے بٹھایا۔ اگر شہباز شریف اپنے بھائی
نواز شریف کے خلاف بغاوت کردیتے تو 2018ء میں انہیں وزیراعظم بننا تھا۔ شہباز شریف کے انکار کے بعد جنرل باجوہ کے پاس کوئی چوائس نہ رہی، انہوں نے عمران خان کو جیسے تیسے اکثریت تو دلوا دی لیکن حکومت سازی کیلئے نمبرز پھر بھی پورے نہ تھے۔ عمران خان کو مرکز اور پنجاب میں سارے نمبرز جنرل باجوہ اور فیض نے پورے کرکے دیئے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان کو جنرل باجوہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے اچھے آرمی چیف لگتے تھے ۔عمران خان اور جنرل باجوہ نے مل کر کرتار پور راہداری کھولی ۔کشمیری حریت پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے بار بار خبردار کیا کہ مودی سرکار پر اندھا دھند اعتماد مت کرو لیکن گیلانی صاحب کی کسی نے نہ سنی ۔کوئی مانے نہ مانے لیکن تاریخ میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ جب 5اگست 2019ء کو مودی سرکار نے مقبوضہ جموں وکشمیر پر آئینی قبضہ کیا تو عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم اور جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف تھے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور معاہدہ عمران خان اور جنرل باجوہ نے مل کر کیا ۔عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم مسلم خان کو صدر عارف علوی سے معافی بھی عمران خان نے دلوائی لیکن جب امن قائم نہ ہوا تو ذمہ داری فوج پر ڈال دی گئی۔