اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر اور کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ ملک کا ایک سابق وزیراعظم ببانگِ دُہل امریکی ٹی وی چینل کو بتا رہا ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں کے کچھ سرکش عناصر اُس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اگریہ بات نواز شریف
یاآصف زرداری نے کہی ہوتی تو اب تک ایک بہت بڑا طوفان آ چکا ہوتا۔عمران خان نے اپنے کچھ ناقدین کے اس مؤقف کی خود ہی تائید کر دی ہے کہ ان کی سیاست کسی انقلاب یا حقیقی آزادی کے لئے نہیں ہے بلکہ وہ خفیہ اداروں کے اندر موجود کچھ سُپر پیٹریاٹ لیکن سرکش عناصر کے سہولت کار ہیں۔یہ عناصر دراصل ایک مخصوص طرز فکر کے نمائندہ ہیں۔ 2011ء میں پہلی دفعہ ایک خفیہ ادارے کے سربراہ نے مجھے کہا کہ ہمیں موروثی سیاست کرنے والی جماعتوں سے جان چھڑانی ہے اور پاکستان میں صدارتی نظام لانا ہے۔ جب میں نے ان صاحب سے کہا کہ جو آپ کرنا چاہتے ہیں وہ آپ کا مینڈیٹ نہیں تو انہوں نے میرے ساتھ بحث شروع کر دی۔ بحث کا اختتام انتہائی ناخوشگوار ماحول میں ہوا جس کا خمیازہ میں نے کافی عرصہ تک بھگتا۔پچھلے سال ہم نے صدارتی نظام کی باتیں دوبارہ سننا شروع کیں۔ باخبر حلقوں میں ایک 30سالہ منصوبہ زیربحث تھا جس کے تحت اپریل 2022ء میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے کچھ عرصہ بعد قبل از وقت انتخابات کرائے جانے تھے۔ان انتخابات میں عمران خان کو دو تہائی اکثریت دلوانی تھی اور پھر نئی قومی اسمبلی سے آئین میں ترامیم کرا کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنا تھا۔ پیپلزپارٹی سے کہا گیا کہ آپ گھبرائیں نہیں عمران خان صرف ایک ٹرم اور لیں گے، اگلی ٹرم آپ کو ملے گی۔