پیر‬‮ ، 23 دسمبر‬‮ 2024 

چیف الیکشن کمشنر کیلئے بڑی مشکل کھڑی ہو گئی

datetime 18  اکتوبر‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)پاکستان تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف جوڈیشل کونسل میں برطرفی کا ریفرنس دائر کر دیا۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے ایک روز بعد 3 اگست کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں

ریفرنس دائر کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا جسے بعد ازاں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس سے واپس لیتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں مزید نکات شامل کیے جائیں گے۔منگل کو دائر کردہ نئے ریفرنس میں پی ٹی آئی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ جانب دار ہیں، ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ مبینہ جانب داری کے باعث سکندر سلطان راجا عہدے کے اہل نہیں ہیں ریفرنس میں کہا گیاکہ تحریک انصاف کے 123 ارکان قومی اسمبل نے استعفے دیے جو الیکشن کمیشن کوبھجوائے گئے لیکن چیف الیکشن کمشنر نے اقدامات نہیں کیے۔ریفرنس میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمیشن نے حلف کی پاسداری نہیں کی، چیف الیکشن کمیشن کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ریفرنس میں چیف الیکشن کمیشن کی لیک آڈیوکا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی گئی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو عہدے سے ہٹایا جائے۔سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں سینیٹر اعجازچوہدر نے کہا کہ حکومت تبدیلی کے وقت ہارس ٹریڈنگ کی منڈی اور بیرونی مداخلت شامل تھی لیکن کوئی گرفتاری نہیں کی گئی۔یاد رہے کہ گزشتہ روز بھی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ 16اکتوبر کو ہونے والا الیکشن ایک پلان کیا ہوا الیکشن تھا، سندھ کا الیکشن کمیشن سندھ حکومت کے پے رول پر ہے، اس کیلئے ہم سپریم جوڈیشل کونسل میں گئے ہوئے ہیں،

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کا کیس سنا نہیں جارہا۔عمران خان کے مطابق آڈیو لیکس میں یہ بھی آگیا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا مسلم لیگ (ن)کا خاص آدمی ہے، ہمیں ان پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔واضح رہے کہ اپریل میں سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے الیکشن کمیشن کو نااہلی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈلاک پیدا ہوگیا تھا، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کا نام اسٹیبلشمنٹ نے دیا تھا، الیکشن کمیشن نے بروقت حلقہ بندیاں نہ کر کے نااہلی کا مظاہرہ کیا، الیکشن کمیشن کی نااہلی کے باعث ملک میں قبل از وقت انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے۔بعد ازاں، پی ٹی آئی نے جولائی میں حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے پر چیف الیکشن کمشنر سلطان راجا کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا،

اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں، جہاں اس کی اکثریت ہے وہاں سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف قراردادیں بھی منظور کرائی تھیں۔بعد ازاں اگست میں پی ٹی آئی نے سکندر سلطان راجا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے ایک روز بعد چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔

پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان کے توسط سے دائر کیے گئے ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی گئی کہ وہ مسلسل اور دانستہ طور پر کی گئی بدانتظامی پر چیف الیکشن کمیشن کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے۔ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ 29جولائی کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ایک وفد نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر 4 اراکین سے ان کے دفتر میں ملاقات کی تاکہ ان پر ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے دبا ڈالا جائے۔درخواست میں یہ موقف اپنایا گیا کہ اس ملاقات کا نتیجہ تھا کہ الیکشن کمیشن نے 2 اگست کو فیصلہ سنانے کا فیصلہ کیا۔

ریفرنس میں استدلال کیا گیا کہ اس طرح سے چیف الیکشن کمشنر نے مبینہ طور پر اپنے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی کی۔ریفرنس میں پی ٹی آئی کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر قانونی، خلاف ضابطہ اور اس کے دائرہ اختیار سے ماورا ہے۔دائر ریفرنس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔ریفرنس میں مزید استدلال کیا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اور وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں بخوبی سر انجام دینے میں میں ناکام رہے ہیں۔

اپنی درخواست میں پی ٹی آئی نے کہا کہ اعلی عدلیہ کے ججوں کے لیے طے شدہ ضابطہ اخلاق کا اطلاق چیف الیکشن کمشنر پر بھی ہوتا ہے۔پی ٹی آئی نے کہا کہ ہائی کورٹ کا جج کبھی کسی شخص یا ادارے کے ساتھ زیر التوا کیسز سے متعلق تبادلہ خیال نہیں کرتا۔ریفرنس میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر کو انتہائی قابل احترام اور مقدس آئینی عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے۔ریفرنس میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی متعدد درخواستیں خارج کیں جن میں پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے فنڈنگ کیسز کی ایک ساتھ سماعت کرنے کی درخواست بھی شامل تھی۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرے اور ان کے مقدمات کو محتاط انداز میں مستقل مزاجی کے ساتھ سنے اور مناسب وقت کے اندر ان کے کیسز کا فیصلہ کرے۔ریفرنس میں شکایت کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ بالا حکم کی تعمیل کے بجائے الیکشن کمیشن نے صرف پی ٹی آئی کے کیس کا فیصلہ سنایا اور دیگر جماعتوں کے مقدمات کو التوا میں رکھا جو کہ مکمل طور پر امتیازی سلوک ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ یہ معمول کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز پاکستان بار کونسل،

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر وکلا فورمز کے ارکان سے ملاقاتیں کرتے ہیں لیکن حال ہی میں دیکھا گیا کہ پرویز الہی کے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف کیس میں سماعت کے دوران عدالت عظمی نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔ریفرنس میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے تاہم انہوں نے نہ صرف پی ڈی ایم کے وفد سے ملاقات کی بلکہ یہ بھی مانا کہ پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں فیصلے کے وقت سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ریفرنس میں ماضی کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے 2018 میں الیکشن کمیشن کو پیپلز پارٹی سے متعلق فنڈنگ کیس کو ایک ماہ میں نمٹانے کا کہا تھا

تاہم الیکشن کمیشن نے صرف چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کو عام انتخابات میں فائدہ پہنچانے کے لیے نے اس حکم کی تعمیل نہیں۔درخواست میں کہا گیا کہ 9اپریل کو قومی اسمبلی کے 125 ارکان اپنی نشستوں سے مستعفی ہوگئے تھے، اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے مستعفی اراکین کے استعفے قبول کرلیے لیکن اس حوالے سے بھی الیکشن کمیشن کا امتیازی رویہ دیکھا گیا۔ان کے استعفے 13 اپریل کو گزٹ میں شائع کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے لیکن انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا جب کہ موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی نے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے 125 میں سے 11 ارکان کے استعفے منظور کر کے ای سی پی کو بھیجے جنہیں فوری طور پر ڈی نوٹیفائی کردیا گیا۔

پی ٹی آئی نے درخواست میں الزام لگایا کہ مسلم لیگ (ن)کے رکن پنجاب اسمبلی محمد کاشف چوہدری کی نااہلی کیس میں چیف الیکشن کمشنر نے ڈی نوٹیفیکیشن میں تاخیر کی تاہم جب مسلم لیگ (ن)سے تعلق رکھنے والے سابق رکن پنجاب اسمبلی فیصل نیازی نے اپنی پارٹی سے علیحدگی کے لیے اپنی نشست سے استعفی دے دیا تو بھی انہوں نے ڈی نوٹیفیکیشن میں تاخیر کی۔ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو متعارف کرانے کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں تاکہ پی ٹی آئی کے مخالفین انتخابات کے دوران دھاندلی کر سکیں۔ریفرنس میں یہ دعویٰ بھی دہرایا گیا کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی زیرقیادت حکومت کو 8 مارچ کو امریکی ڈپٹی انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کی جانب سے جاری کردہ سائفر کی بنیاد پر شروع کی گئی سازش کے تحت گرایا گیا۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…