اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے فائنل کال دینے سے عین پہلے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے عمران خان کے بارے میں ریمارکس کسی حد تک چارج شیٹ سے کم نہیں جن سے یقیناً عمران خان کو سیاسی دھچکا لگے گا۔روزنامہ جنگ میں رانا غلام قادر لکھتے ہیں کہ عمران خان آڈیو لیکس کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہیں اور انہوں نے اس ایشو پر عدلیہ سے رجوع کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔
لیکن انہیں صدر مملکت کے نجی ٹی وی کو انٹر یو سے ضرور صدمہ ہوا ہو گاجس نے عمران خان کے فیصلوں کے بارے میں سوالات کو جنم دیا ہے۔سائفر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے وہ خط چیف جسٹس کو بھیجا، میں اس بات پر متفق تھا کہ اس پر تحقیقات ہونی چاہیے، میں اس حقیقت پر متفق نہیں تھا کہ سازش ہوئی مگر میرے شبہات ہیں، اس لیے تحقیق ہو۔سازش کے بیانیہ سے ڈاکٹر عارف علوی کے اتفاق نہ ہونے کے بعد تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈپلومیٹک سائفر کی سازش کا بیانیہ اب دفن سمجھا جا ئے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کہ امریکا کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔صدرمملکت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پارلیمنٹ سے باہر ہونے سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے، اب مشورہ دینا بے کار ہے کیونکہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان جس طرح ان کی حکومت ہٹائی گئی، اس سے فرسٹریٹ ہوگئے اور ذاتی طور پر فیصلہ کیا کہ میں نہیں بیٹھوں گا، مجھ سے مشورہ ہوتا تو میں اس سے مختلف مشورہ بھی دے سکتا تھا۔گویا صدر مملکت نے اس بات پر مہر ثبت کردی کہ عمران خان کا اسمبلی چھوڑنے کا فیصلہ ایک جذباتی اقدام تھا۔ اس سے عمران خان کی سیا سی بصیرت کے بارے میں بھی سوالات اٹھا دیے۔سیا سی حلقے پہلے ہی عمران خان کے اس فیصلے کو غیر سیا سی جذباتی فیصلہ قرار دے چکے ہیں۔