اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی اور کالم نگار سلیم صافی روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ حکومت سے نکالے جانے کے بعدشاید ہی کوئی روز ایسا گزرا ہو کہ جب نیازی صاحب یاان کے کسی نمائندے نے کسی نہ کسی چینل سے آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی کا منت ترلہ نہ کیا ہو۔ ان کا یہی مطالبہ رہا کہ وہ ماضی کی طرح انہیں گود لے کر موجودہ حکومت کو
رخصت کرکے دوبارہ انتخابات کروادیں تو وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ان رابطوں کے دوران انہوں نے جنرل قمرجاوید باجوہ کو گارنٹی کے ساتھ ایکسٹینشن کی آفر بھی کی لیکن وہ نیوٹرل رہنے پر اصرار کرتے ہوئے ملاقات سے انکار کرتے رہے ۔نہ چیف کے رشتہ داروں کو چھوڑا گیا ، نہ سابق فوجی افسران کو اور نہ ان کے ذاتی دوستوں کو ۔ نوبت یہاں تک آئی کہ افغانستان کے لئے امریکہ کے سابق نمائندے زلمے خلیل زاد سے بھی آرمی چیف کو درخواستیں کروائی گئیں کہ وہ عمران نیازی سے ایک ملاقات کرلیں ۔واضح رہے کہ امریکی نیوکانز کے رکن زلمے حکومت کی تبدیلی کے ایک ماہ بعد پاکستان آئے تھے اور نیازی صاحب سے خفیہ اور طویل ملاقات کی تھی۔علاوہ ازیں پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بھی دن رات منت ترلے میں لگے رہے جبکہ عارف علوی بھی ہمہ وقت اسی کام میں لگے رہے لیکن آرمی چیف پھر بھی ملنے کو تیار نہیں تھے۔نوبت یہاں تک آئی کہ ایک دن اچانک عارف علوی آرمی چیف کے گھر جاپہنچے اور کافی دیر تک منت ترلہ کرکے انہیں اپنے گھر یعنی ایوان صدر میں اپنے لیڈر عمران نیازی سے ملاقات پر آمادہ کیا ۔
چنانچہ نیازی صاحب سے شدید مایوس اور دکھی جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم شہباز شریف کو مطلع کرکے اس ملاقات کیلئے ایوان صدر گئے۔حسبِ عادت عمران نیازی نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایم کیوایم اور باپ پارٹی کو الگ کروا کر موجودہ حکومت ختم کردیں اور فوری انتخابات کروا لیں۔ جواب میں انہیں بتایا گیا کہ پہلے ہی پی ٹی آئی کے لئے غیرآئینی کردار ادا کرنے کی وجہ سے فوج بہت بدنام ہوئی ہے اور وہ دوبارہ یہ غلطی نہیں کرسکتی ۔
ان کے سامنے اعدادوشمار رکھ کر بتایا گیا کہ اگر وہ اقتدار میں رہتے تو جون تک ملک ڈیفالٹ کرجاتا جبکہ امریکی سازش کے جھوٹے بیانیے سے بھی انہوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ عمران نیازی اصرار اور عارف علوی وغیرہ بیچ بچائو یا منت ترلہ کرتے رہے تو جواب میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی تمام احسان فراموشیوں اور فوج میں تقسیم کی کوشش کے باوجود فوجی قیادت ان کے ساتھ دشمنی نہیں چاہتی اور نہ یہ چاہتی ہے کہ ان کے ساتھ وہ سلوک ہو جو بھٹو یا نواز شریف وغیرہ کے ساتھ ہوا لیکن فوج انہیں فوری طور پر الیکشن نہیں دے سکتی ۔
وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ موجودہ سیٹ اپ نے آئی ایم ایف سے ڈیل کرکے وقتی طور پر ملک کو دیوالیہ ہونےسے بچالیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشی استحکام آگیا ہے۔ اب بھی ڈالر اور مہنگائی کنٹرول میں نہیں آرہے ہیں۔ روزانہ فوج اور حکومت کوششیں کرکے چند ارب کا انتظام کرتی اور ملکی انتظام چلاتی ہے جبکہ اوپر سے سیلاب نے کسر پوری کردی ۔
تاہم اگر اتحادی جماعتوں کا آپس میں کوئی مسئلہ آجاتا ہے اور حکومت خود ٹوٹ جاتی ہے یا پھر اگر معاشی استحکام کے بعد متفقہ طور پر سیاسی جماعتیں قبل ازوقت انتخابات کراتی ہیں تو فوج نہ رکاوٹ بنے گی اور نہ مداخلت کرے گی۔انہیں یہ بھی کہا گیا کہ اس وقت بھی دو صوبوں اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومت ہے اورمشورہ دیا گیا کہ بہتر ہوگا کہ وہ پارلیمنٹ میں دوبارہ جائیں اور مفاہمت کے ذریعے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور نئے انتخابات کا راستہ نکالیں ۔وہ اگر پاپولر ہورہے ہیں تو فوج ان کا راستہ نہیں روکے گی اور اگر وہ اگلے انتخابات جیتتے ہیں تو آرام سے جیت لیں۔ فوج اسی طرح لاتعلق رہے گی جس طرح پنجاب کے ضمنی انتخابات میں لاتعلق رہی ۔ یوں یہ میٹنگ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئی ۔