جمعرات‬‮ ، 26 دسمبر‬‮ 2024 

امریکی ڈالر کی قیمت250 روپے کے قریب پہنچ گئی

datetime 19  ستمبر‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک ٗ این این آئی)پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔آج صبح کاروبار کے آغاز سے ہی ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہےانٹربینک میں ڈالر 16 پیسے مہنگا ہو کر 237 روپے کا ہوگیا ہے۔دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر 2 روپے مہنگا ہو کر 243 روپے کا ہو گیا۔ حکومت ڈالر کے بہا کو کنٹرول کرنے کے

لیے مسلسل کوشاں ہے ،دوسری جانب بینکوں نے امریکی کرنسی کی خریداری کو دگنا کر دیا اور اسے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بیرون ملک بھیج رہے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ڈالر کی قیمت 236.84 روپے پر بند ہوئی جو اس سے ایک روز قبل 235.88 روپے کے مقابلے میں 96 پیسے زیادہ ہے۔ڈالر کی شرح مبادلہ پر مضبوط گرفت ہے، کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور زیادہ درآمدات کے درمیان تنا ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔اوپن مارکیٹ نے گزشتہ روز ڈالر کی قیمت 241 روپے بتائی جو جمعرات کو تقریبا اس کے برابر تھی، کرنسی ڈیلرز نے کہا کہ ڈالر اور دیگر کرنسیوں کا ملنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ طلب بہت زیادہ ہے۔کرنسی مارکیٹ کے ماہرین نے کہا کہ اسٹیٹ بینک اور حکومت کا اوپن مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری پر سخت کنٹرول ہے لیکن بینکوں نے اس کا راستہ کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ڈھونڈ لیا ہے۔چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان نے کہا کہ ہر ہفتے بینکوں کی اوسط خرید تقریبا 20 سے 40 لاکھ ڈالر تھی جو اب اوسطا ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔اوپن مارکیٹ سے ایک عام آدمی کے لیے 500 ڈالر سے زیادہ خریدنا انتہائی مشکل ہے لیکن اس کا بھی ایک باقاعدہ راستہ ڈھونڈ نکال لیا گیا ہے۔

بیرون ملک جانے والے مسافر ملک سے فی بندہ 10 ہزار ڈالر تک لے سکتے ہیں اور اب کریڈٹ کارڈز کی بہت زیادہ مانگ بڑھ گئی ہے۔کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ بینکوں کی جانب سے ڈالر کی خریداری نے اوپن مارکیٹ سے ڈالر کو کھینچ لیا ہے۔ملک بوستان نے کہا کہ ہم نے حکومت سے کہا کہ وہ مسافروں کے لیے ڈالر خریدنے کی حد آدھی کرکے 5 ہزار ڈالر کر دے، اس کے علاوہ کریڈٹ کارڈز پر ماہانہ 2 ہزار ڈالر خرچ کرنے کی حد ہونی چاہیے۔

کرنسی ڈیلرز نے کہا کہ حکومت عالمی قرض دہندگان سے قرض لے کر اور اخراجات محدود کر کے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن کریڈٹ کارڈز کے ذریعے بینکوں سے نکلنے والی رقم ان کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔اسٹیٹ بینک کا اصرار ہے کہ کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے تاہم درآمد کنندگان نے کہا کہ خام مال کے لیے ایل سی(لیٹرز آف کریڈٹ)کھولنا آسان نہیں ہے۔

ایک درآمد کنندہ نے کہا کہ یہ اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک درآمدی بل کو کم سے کم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔کرنسی ڈیلر نے دعوی ٰ کیا کہ بینک گرے مارکیٹ سے بھی بہت زیادہ نرخوں پر ڈالر خرید رہے ہیں، تاہم کریڈٹ کارڈز کے ذریعے اخراج نے شرح مبادلہ کو درپیش خطرے میں اضافہ کیا ہے جس سے پاکستان میں امریکی ڈالر مزید تگڑا ہورہا ہے۔

موضوعات:



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…