اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہو گئی ہیں، خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان میں عوام کو ریلیف ملنے کا امکان ہے، خام تیل کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہوئی ہے، کچھ روز قبل بھی عالمی منڈی میں خام تیل کی قدر میں تین ڈالر فی بیرل سے زائد کی کمی ہوئی تھی۔
دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن کسی ملک میں پیٹرول مہنگا محسوس ہوتا ہے کسی میں نہیں۔ دراصل اس کا انحصار کافی حد تک وہاں کے لوگوں کی قوت خرید پر بھی ہے۔ اگر سوئٹزرلینڈ میں پیٹرول کی قیمتیں ایک نظر میں بہت زیادہ لگ سکتی ہیں، تو وہ حقیقت میں نہیں ہیں۔درحقیقت، سوئٹزرلینڈ میں لوگوں کی دولت کی سطح کے مقابلے میں، یہ اتنا مہنگا نہیں جتنا لگتا ہے۔پاکستان میں لیوی کے باوجود پیٹرول زیادہ مہنگا نہیں لیکن ہمارا ملک سوئٹزرلینڈ کی طرح امیر نہیں اس لئے یہاں بہت مہنگا محسوس ہوتا ہے۔ہانگ کانگ میں پیٹرول کی قیمت سب سے زیادہ ہے۔ یہاں پٹرول 2.98 ڈالر فی لیٹر فروخت ہو رہا ہے۔ایک گیلن پیٹرول کی قیمت $11.28 ہے۔ لیکن یہاں کے لوگوں کے معیار زندگی کو دیکھتے ہوئے یہاں پیٹرول سب سے مہنگا نہیں ہے۔’گلوبل پیٹرول پرائسز’ اور گلوبل اکانومی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر نیوین ویلیف کہتے ہیں کہ قطر اور کویت جیسے تیل برآمد کرنے والے ممالک سبسڈی دے کر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بہت کم رکھتے ہیں۔ امریکہ اور آسٹریلیا جیسی ترقی یافتہ معیشتوں میں پٹرول مہنگا ہے لیکن وہاں لوگوں کی آمدنی زیادہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ دوسری طرف بہت سے غریب ممالک ہیں جہاں پٹرول اتنا مہنگا نہیں ہے لیکن وہاں کے لوگوں کی آمدنی بہت کم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قطر، کویت، لگزمبرگ، امریکہ اور آسٹریلیا میں لوگوں کو پیٹرول بہت سستا لگتا ہے۔ دوسری جانب موزمبیق، مڈغاسکر، ملاوی، سیرا لیون اور روانڈا میں پیٹرول کی قیمتیں بہت زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ یہ مختلف ممالک میں لوگوں کی آمدنی کی سطح کا اثر ہے۔ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں توانائی کا بحران ہے، پیٹرول کی قیمتیں کئی ممالک کے لیے بڑا درد سر بن چکی ہیں۔
بیشتر ممالک کو اپنے شہریوں کو سستا تیل فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ سے مہنگے داموں پیٹرول خریدنا پڑتا ہے۔پیٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے عالمی معیشت میں مہنگائی کی نئی لہر پیدا ہو گئی ہے جس نے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عوام کا گھریلو بجٹ بگڑ چکا ہے جبکہ شرح سود میں اضافے اور گرتی ہوئی معاشی ترقی کی وجہ سے افراتفری کا ماحول ہے۔
ویلیو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ یوکرین کی جنگ سے ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے مزید آگ بھڑکا دی ہے۔ کورونا کے بعد عالمی معیشت میں بحالی کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عام صارفین کو مہنگا تیل خریدنا پڑ رہا ہے۔ لیکن مختلف ممالک میں صورتحال بھی مختلف ہے۔یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا یہ ممالک خام تیل درآمد کرتے ہیں یا برآمد کرتے ہیں۔
تیل کی قیمتوں کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ کس کے پاس ریفائننگ کی کتنی صلاحیت ہے۔ قیمتیں دیگر عوامل پر بھی منحصر ہوتی ہیں، جیسے کہ حکومتی سبسڈی کی سطح وغیرہ۔ آمدنی کی سطح کے پہلو کو نظر انداز کیا جائے تو وینزویلا، لیبیا، ایران، الجزائر اور کویت میں تیل کی قیمتیں سب سے کم ہیں۔ جبکہ ہانگ کانگ، آئس لینڈ، زمبابوے، ناروے اور وسطی افریقی جمہوریہ میں قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔
سال کے شروع میں دنیا میں پیٹرول کی اوسط قیمت 1.23 ڈالر فی لیٹر تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ اس کی قیمتیں بڑھ گئیں اور جون تک یہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس دوران یہ قیمتیں 1.50 ڈالر فی لیٹر تک بڑھ گئی تھیں۔ تاہم اس وقت یہ 1.31 ڈالر فی لیٹر کی سطح پر پہنچ رہا ہے۔ یہ قیمت یوکرائن کی جنگ سے پہلے کی ہے۔ خام تیل کی قیمتیں بھی جنگ سے پہلے کی سطح پر پہنچتی دکھائی دے رہی ہیں۔ لیکن اس کی وجہ دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں میں سست روی ہے۔