اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی مطیع اللہ جان نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ جب چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیناشروع کئے تو چیف جسٹس عمران خان کو شکایت لگا رہے تھے جو سامنے کرسی پر بیٹھے تھے وہ ملزم جس کو
شوکاز نوٹس جاری ہو چکا ہے وہ ہنس رہا تھا ہاتھ میں تسبیح تھی اس کے اور وہ اپنے ساتھ بیٹھے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی سے باتیں کر رہا تھا اور اس کو ایک دفعہ بھی یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز ملزم کو کھڑا نہیں کر سکے، وہ بیٹھا رہا، مطیع اللہ جان نے کہا کہ عام کوئی غریب آدمی یا کوئی سیاستدان تمام کھڑے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر سیاستدان روسٹرم پر آ کر کھڑے ہوتے رہے ہیں، لیکن ان پانچ ججز نے عمران خان کو یہ تک نہیں کہا کہ آپ کہاں ہیں آپ سامنے آئیں، ججز ٹارچر کیس پر وضاحتیں دیتے رہے کہ ہم نے تو یہ فیصلے دیے، مطیع اللہ جان نے کہاکہ جو ان کو نیا جواب لکھنے کا موقع دیا گیا ہے وہ آرڈر سے زیادہ، حکم سے زیادہ ایک استدعا تھی جو پانچ معزز ججز کی جانب سے عمران خان کو کی گئی۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کوسات روز میں دوبارہ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہاہے کہ عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب سے ذاتی طور پر دکھ ہوا، عدالت توقع کرتی تھی آپ ادھر آنے سے پہلے عدلیہ کا اعتماد بڑھائیں گے،عمران خان کے پائے کے لیڈر کو ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، ایک سیاسی لیڈر کے فالورز ہوتے ہیں، اسے کچھ کہتے ہوئے سوچنا چاہیے،
، عمران خان نے عوامی جلسے میں کہا عدالت رات 12 بجے کیوں کھلی؟ عدالت کو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیوں کھلی؟ عدالت اوپن ہونا کلیئر میسج تھا کہ 12 اکتوبر 1999ء دوبارہ نہیں ہو گا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ عمران خان اپنے وکلا کے ساتھ پیش ہوئے۔اٹارنی جنرل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون، عمران خان کے وکیل حامد خان بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
عدالت میں کارروائی شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ان سے کہا کہ آپ عمران خان کے وکیل کے ساتھ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں، آپ نے جو تحریری جواب جمع کرایا اس کی توقع نہیں تھی، یہ عدالت توقع کرتی تھی کہ آپ ادھر آنے سے پہلے عدلیہ کا اعتماد بڑھائیں گے، ایک سیاسی جماعت قانون اور آئین کی حکمرانی پر یقین رکھے گی، 70 سال میں عام آدمی کی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں، عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا، ماتحت عدلیہ جن حالات میں رہ رہی ہے، اس کورٹ کی کاوشوں سے جوڈیشل کمپلیکس بن رہا ہے۔