ولنگٹن (این این آئی)نیوزی لینڈ کرکٹ نے کہا ہے کہ وہ سابق کپتان روس ٹیلر کے ان الزامات کا جائزہ لے رہے ہیں جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ وہ کیریئر کے دوران نسل پرستی کا شکار ہوئے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق 38 سالہ کرکٹر 16سال کے شاندار کیریئر کے بعد رواں سال اپریل میں ریتائر ہو گئے تھے۔گزشتہ روز جاری ہونے والی اپنی سوانح عمری”بلیک اینڈ وائٹ” میں
عظیم کیوی بلے باز نے کہا کہ انہوں نے ٹیم کے ساتھیوں کی جانب سے چبھتے ہوئے نسل پرستانہ تبصرے برداشت کیے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کھیل میں کس سطح پر انہیں ان تبصروں کا نشانہ بنایا گیا۔روس ٹیلر نے اپنی رنگت کا حوالہ دہتے ہوئے کہا کہ اپنے کیریئر کے بیشتر حصے میں وہ ایک گوری رنگت کے حامل افراد کی لائن اپ میں سب سے الگ بھورے چہرے والی شخصیت تھے۔انہوں نے ڈریسنگ روم کے ماحول کے حوالے سے بھی شاکی لہجے میں کہا کہ ایک ساتھی مجھ سے اکثر کہتا تھا ،آپ آدھے اچھے آدمی ہیں روس تاہم کون سا آدھا اچھا ہے؟ آپ نہیں جانتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ دوسرے کھلاڑیوں کو بھی نسل پرستی پر مبنی ان تبصروں کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے 112 ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے 2006 سے 2022 کے درمیان 7ہزار683 رنز بنائے جبکہ وہ 2012 تک دو سال تک کیویز کے کپتان بھی رہے۔
نیوزی لینڈ کرکٹ کے ترجمان نے بتایا کہ انہوں نے الزامات کے بارے میں ٹیلر سے رابطہ کیا ہے۔ترجمان نے کہا کہ نیوزی لینڈ کرکٹ نے کتاب کے کچھ حصوں پر تبادلہ خیال کیلئے روس ٹیلر سے رابطہ کیا ہے، یہ بات چیت ان کی تفصیلات کو بہتر طور پر سمجھنے اور مدد کی پیشکش کیلئے جاری ہے۔
انہوں نے کہاکہ نیوزی لینڈ کرکٹ نسل پرستی کی مذمت کرتا ہے، ہم روس کو اپنے کرکٹ خاندان کا اہم حصہ سمجھتے ہیں اور اس قسم کے رویے کے حوالے سے اطلاعات سامنے آنے پر سخت مایوس ہیں۔گزشتہ ماہ، کرکٹ اسکاٹ لینڈ میں نسل پرستی کے الزامات کے ایک آزاد جائزے میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ تنظیم کی حکمرانی اور قیادت کے طریقے ادارتی طور پر نسل پرست ہیں۔
رواں سال جون میں پاکستانی نڑاد عظیم رفیق نے کہا کہ جب سے یارکشائر کے سابق اسپنر نے اپنے پرانے کلب کے خلاف نسل پرستی کے الزامات لگائے ہیں تب سے ان کے خاندان کو سنگین دھمکیوں کا سامنا ہے۔عظیم رفیق کے بیان نے انگلش کرکٹ کو اس وقت ہلا کر رکھ دیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ یارکشائر کے کھلاڑی کی حیثیت سے انہیں نسلی طور پر ہراساں کیا گیا اور غنڈہ گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔