لاہور (آن لائن) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے سانحہ ماڈل ٹائون کیس کے حوالے سے دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے قتل عام کا
منصوبہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی سرپرستی میں وزیراعظم میں بنا ،اصل ماسٹر مائنڈز نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ ہیں جبکہ پولیس اور سول ایڈمنسٹریشن نے آلہ کار کا کردار ادا کیا۔ ان سارے حقائق پر مشتمل تھانہ فیصل ٹائون لاہور میں ایف آئی آر نمبر 696 آج بھی درج ہے اور زندہ ہے۔ ابھی اس ایف آئی آر پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ حمزہ شہباز کے غیر قانونی اقتدار کے دوران سانحہ ماڈل ٹائون کے قاتلوں کو بری کروانے کی کوشش کی گئی تھی جو ہمارے فعال قانونی کردار کے باعث ناکام ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پیش کررکھے ہیں مگر انصاف کے معاملے میں غیر ضروری تاخیر کا شکار ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کی بطور ملزم طلبی کی پٹیشن اعلیٰ عدلیہ میں زیر التواء ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اور رانا ثناء اللہ نے بطور وزیرقانون پنجاب سانحہ ماڈل ٹائون کیس کی تفتیش مرضی کے افسروں سے کروائی اور اہم حقائق کو مسخ کیا گیا۔شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ نے انصاف کے لئے نہیں کلین چٹ حاصل کرنے کے لئے ذاتی نوکروں سے سانحہ ماڈل ٹائون کی پہلی تفتیش کروائی۔ نوکروں کی اس تفتیش میں سانحہ ماڈل ٹائون کے زخمیوں اور چشم دید گواہان کے بیانات قلمبند کرنے سے انکار کیا گیا
اور یکطرفہ چالان اے ٹی سی میں پیش کیا گیا۔ خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ ہمارا 8سال سے مطالبہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کیس کی غیر جانبدار تفتیش کروائی جائے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر ایک نئی جے آئی ٹی بنی جسے لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے کام کرنے سے روکا گیا ہے۔ 3سال سے سٹے آرڈر چل رہا ہے۔ غیر جانبدار جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک رانا ثناء اللہ اور حواری بے گناہی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا
کہ میاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ قتل عام کا سارا ملبہ پولیس افسروں اور اہلکاروں پر ڈالنا چاہتے ہیں جبکہ پولیس نے صرف آلہ کار کا کردار ادا کیا۔ سانحہ کے اصل ماسٹر مائنڈ شریف برادران اور رانا ثناء اللہ ہیں۔ 17جون 2014ء سے صرف ایک دن قبل مشتاق سکھیرا کو کوئٹہ سے پنجاب آئی جی لگایا گیا۔ اس ہنگامی تقرری کا شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ آج تک کوئی جواز پیش نہیں کر سکے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت کے ڈی سی او لاہور کو بھی
راتوں رات بدلہ گیا اور درجنوں تھانوں کی پولیس ماڈل ٹائون کے رہائشی علاقے میں بھجوائی گئی، یہ بیریئر ہٹانے کا نہیں بلکہ تحریک منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے قائدین اور کارکنان کو بے رحمی سے قتل کرنے اور ڈرانے کا پلان تھا کیونکہ نواز حکومت چاہتی تھی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان نہ آسکیں کیونکہ وہ خوفزدہ تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستان آ کر ان کے فاشسٹ اقتدار کے خلاف رائے عامہ ہموار کی تو وہ حکومت نہیں کر سکیں گے۔ خرم نواز گنڈاپور نے مزید کہا کہ ہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ غیر جانبدار جے آئی ٹی کے حوالے سے سٹے آرڈر کا جلد فیصلہ کیا جائے تاکہ سانحہ کے ماسٹر مائندز کے چہروں پر پڑے ہوئے نقاب اتر سکیں۔