لاہور(این این آئی) وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سیاسی جماعت، حکمران اتحاد، سول سوسائٹی اور وکلاء کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ تریسٹھ اے کی تشریح کے لئے فل کورٹ بنایا جائے، ہم امید کرتے ہیں کہ آج کی سماعت میں چیف جسٹس اس مطالبے پر
غور فرمائیں گے ،ہمارے مطالبے کی جو بنیاد ہے اس کے پیچھے بد نیتی نہیں ہے،تریسٹھ اے کی تشریح کی درخواستوں کو یکجا کیا جائے اور فل کورٹ کا تجزیہ لیا جائے کیونکہ اس کے مستقبل کی سیاست پر بھی دو رس نتائج ہوں گے،یہ ایک جائز مطالہ ہے اسے افواہوں کی نظر نہیں ہونا چاہیے، کون آرگنائز ٹرینڈچلاتا ہے سب کو معلوم ہے، ہم کسی بھی ادارے کے خلاف ہرزہ سرائی کی مذمت کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی وزیر داخلہ اعظم نذیرتارڑ کے ہمراہ ماڈل ٹاؤن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو سیاسی لحاظ سے ایک ایسی کیفیت کا سامنا ہے جس میں کچھ انتہائی اہم قانونی اور آئینی معاملات حل طلب ہیں،مختلف نوعیت کے مقدمات سپریم کورٹ میں گئے ہوئے ہیں جس میں ایک مقدمہ 63اے کی تشریح کا ہے جو سابقہ حکومت میں وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر کو بھجوایاگیا تھا اور سپریم کورٹ کو ریفرنس کی شکل میں بھیجا تھا کہ اگر کچھ ممبران پارٹی کی ہدایت سے ہٹ کر ووٹ دیتے ہیں تو ان کا ووٹ شمار ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اس دوران بار ہا یہ کوشش کی گئی کہ اور یہ استدعا بھی کی گئی کہ حکم امتناعی جاری کیا جائے ووٹ شمار نہ جائے لیکن اس میں سپریم کورٹ نے حکم امتناعی نہیں دیا تھا،تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گئی،عثمان بزدار کے مستعفی ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے،
اسی کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے تین دو کے ساتھ فیصلہ دیا اور تین ججز صاحبان نے کہا کہ ایسے ووٹ جو پارٹی سربراہ کی ہدایت کے برعکس ڈالے گئے ہیں وہ ووٹ شمار نہیں کئے جائیں گے۔ اس فیصلے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے عدالتی فیصلے کا ماضی سے اطلاق کر کے پنجاب اسمبلی کے 25ووٹوں کو خارج کر دیا اور دوبارہ انتخاب کا حکم دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں دوبارہ انتخاب کے دورنا یہ صورتحال پیدا ہوئی
اورپریذائیڈنگ آفیسر نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کی جانب سے ڈپٹی سپیکر کو اطلاع دی گئی انہوں نے تریسٹھ اے کے تحت اپنے اراکین کو ہدایت کی ہے کہ ووٹ حمزہ شہباز کو کاسٹ کئے جائیں، جس طر ح 25ووٹ شمار نہ ہونے سے ہمارے ووٹ 197سے172پرآگئے تھے رن آف الیکشن میں تحریک انصاف کے ووٹ 186سے 176 ووٹ ہوگئے اور شہباز شریف 179ووٹوں سے کامیاب قرار دئیے گئے۔ انہوں نے کہاکہ پرویز الٰہی کی درخواست
پر رات پونے ایک بجے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کو کھولا گیا اور اس دفعہ تھوڑا عجیب ہوا کہ رجسٹری کا عملہ پہلے آ گیا لیکن درخواست تیار نہیں تھی،ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کو دیواریں پھلانگ کر بازور بازو داخل ہوتے بھی دیکھا گیا لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس میں نظر ثانی کی درخواست داء رکر رکھی ہے،موجودہ کیس بھی ہے کہ ووٹ صحیح شمار ہوئے ہیں یا نہیں ہیں یا پہلے
ممبران ڈی سیٹ ہوئے ہیں یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مقدمات ہیں جس میں بنیادی مقدمہ تریسٹھ اے کی تشریح کا مقدمہ ہے جس سے سارے معاملات حل ہوتے ہیں اور عدالت کو چاہیے کہ فل کورٹ میں سماعت کر کے اس معاملے کو ایک ہی دفعہ حل کر دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی کی طرف سے بھی آوا ز آئی ہے کہ سیاسی او راہم نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے لئے لارجر بنچ یا فل کورٹ اسے سنے،سپریم کورٹ کے سابقہ
پانچ صدور لطیف آفریدی، یاسین آزاد،فضؒ حق عباسی، کامران مرتضیٰ اور سید قلب حسن نے بھی مطالبہ دہرایا ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون کی نظر ثانی کی اپیل ہے پڑی ہوئی ہے،پاکستان بار کونسل کے ممبر نے بھی یہ بات کی ہے کہ یہ نازک اور سنجیدہ معاملہ ہے اورآئینی سوال اٹھتا ہے۔2015،2018 ء میں آٹھ رکنی بنچ نے تشریح کی تھی اور حالیہ فیصلے میں کسی حد تک اس کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے، پانچ رکنی اور آٹھ رکنی بنچ
پہلے ہی بیٹھ چکے ہیں،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی حکومت کے سامنے یہ بات رکھنے جارہے ہیں کہ مقدمے کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے فل کورٹ بٹھایا جائے۔انہوں نے کہاکہ ماضی میں جب ایک جج صاحب کے بارے میں ریفرنس فائل ہوا اور معاملہ چیلنج ہوا فل کورٹ بنا اور نظر ثانی کی درخواست بھی فل کورٹ نے سنی۔ 12کروڑ عوام کے نمائندے کا معاملہ ہے اس میں شفافیت اور غیر جانبداری کا تقاضہ ہے کہ اسے سنجیدگی
کے ساتھ سنا جائے اور اس کو عدالت کے تمام جج صاحبان کے سامنے رکھا جائے۔ بہت ساری لوگوں کی نظر میں تریسٹھ اے کی درست تشریح نہیں ہوئی ،نظر ثانی آئین پاکستان میں دیا گیا حق ہے جو متاثرہ فریق مانگ سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ چیف جسٹس آج کی پروسیڈنگ میں اس پر غور فرمائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جج صاحب کے بارے میں جو ٹرینڈ چلا یا جارہا ہے کہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب یا مریم نواز کی جانب سے
چل رہاہے بالکل غلط ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ماضی میں چند ماہ پہلے جب کچھ فیصلے آئے چاہے وہ عدلیہ سے آئے یا کہیں اور سے آئے تو ایک جماعت نے کیسے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اوراس جماعت نے کس طرح کی زبان استعمال کی۔مسلم لیگ (ن) عدالتوں کی عزت کرتی آئی ہے اور ہم حق کی آواز اٹھانے پر بھی یقین رکھتے ہیں،اداروں کے بارے میں جو مہم چلائی گئی اور مغلظات بکی گئیں وہ ہماری پارٹی کا شیوہ نہیں ہے اور ہم اس کو
یکسر مسترد کرتے ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ ٹرینڈنگ کس طرح سے ہوتی ہے اور کون آرگنائز ٹرینڈنگ کرنے میں ماہر ہے، کس نے پاکستان کا نقشہ بدل کر تصویر چلائی،وردی کیلئے تالیاں کون بجاتے ہیں اور اگلے دن کہتے ہیں نیوٹرل ہو گئے ہیں اور انہیں نام بھی دیتے ہیں، ہم اس طرح کی ہرزہ سرائی کو مسترد کرتے ہیں اور اپنی پارٹی اور حکومت کی طرف سے واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ (ن) لیگ اور اور حکمران اتحاد اپنے عمل سے عدلیہ کی عزت
کو ثابت کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کہہ رہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف فیصلہ آرہا ہے لیکن ہم جو آوازیں سن رہے ہیں کہ معاملے کی نزاکت ایسی ہے جس میں یہ بات سمجھ میں آرہی ہے اور سمجھا ہے کہ 16اپریل کو جو الیکشن ہوا اس وقت تک تریسٹھ اے کی تشریح نہیں آئی تھی 17مئی کو فیصلہ جاری کر دیاگیا ہے کہ پارلیمانی پارٹی یا سربراہ کی ہدایت کے برعکس ووٹ ڈال دیا گیا تو وہ شمار نہیں ہوگا، یہ
معاملہ الیکشن کمیشن میں گیا اور اس کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے سامنے بھی برملا نقطہ اٹھایا گیا کہ ڈائریکشن پارٹی سربراہ کی تھی پارلیمانی پارٹی کی نہیں تھی اس میں ابہام ہے یہ ووٹ شمار سے نہیں نکل سکتے، دونوں فورم نے بات نہیں سن اور اس کی اپیل لے کر سپریم کورٹ میں گئے اور کہا گیا کہ حکم امتناعی دے کر اسے روکا جائے تو اس وقت معزز عدالت نے کہا تھا کہ بادی النظر میں بات میں صداقت نہیں ہے، آج پھر نقطہ
کھڑا ہو گیا ہے جو بات یہاں سے ہو رہی ہے آج وہ دوسری طرف سے آ گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ 2015میں آٹھ رکنی بنچ نے تریسٹھ اے کا جائزہ لیا، اس میں موجودہ چیف جسٹس بھی شامل تھے اور اس میں پارٹی سربراہ کو تریسٹھ اے میں اختیار دیا گیا کہ وہ ہی ہدایات جاری کرے گا،2018سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ اٹھا درخواست دی گئی کہ نواز شریف سزا ہو گئی ہے وہ صدر نہیں رہ سکتے تو پانچ رکنی بنچ جس میں اس وقت موجودہ بنچ کے
دو معز زججز صاحبان حصہ تھے یہ کہاگیا کہ پارٹی سربراہ پارٹی چلاتا ہے اس کے ہوتے ہیں ڈیفکشن کلاز کا اختیار اس کے اختیار میں ہے، لوگ ووٹ پارٹی سربراہ کو دیتے ہیں، ملک میں دو قانون ہیں، عمران خان کی شخصیت یاپی ٹی آئی کو دیا گیا ووٹ مقدس ہے اور چوہدری شجاعت حسین کی شخصیت اور صدارت میں پارٹی کو دیاگیا ووٹ چھوٹا اور کمزور ووٹ ہے اسے باہر پھینک دو،دو اصول نہیں لاگوہوتے،مختلف تشریحات مانگی جارہی
ہے،2015،2018 اور سپریم کورٹ بار کیس کے نظر ثانی کیس میں میر ے سمیت اسی فیصد وکلاء یہ سمجھے ہیں کہ 17دو کو تریسٹھ اے کے ساتھ نہیں پڑھا جا سکتا اس لئے پر فل کورٹ بنایا جائے تاکہ یہ تنازعہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ کورٹ کے نوٹس میں یہ بات تھی چیف جسٹس نے کہا کہ 17مئی والا فیصلہ کلوز ٹرانزیکشن ہے،سپریم کورٹ بار فریق تھا اورمعروضات لی گئیں نظر ثانی کی درخواست موجود ہے اگر
تشریح نہیں ہوتی تین،دو کے بنچ کا ابہام رہے گا اورہر بار تنازعہ آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اطلاعات ہیں اورمیری طارق بشیر چیمہ سے بات ہوئی ہے کہ انفرادی دس اراکین کو یہ لیٹر بھیجا گیا، کورئیر سروس کے ذریعے بھی بھجوائے گئے۔انہوں نے کہاکہ مختلف حلقوں سے آواز اٹھائی گئی،اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے خدا نخواستہ میرے منہ میں خاک ہم عدالت کو معتبر سمجھتے ہیں،آئین و قانون کے تحت پابند ہیں کہ عدالتوں کا احترام کریں،
فل کورٹ کی درخواست کے حوالے سے قانونی حل ہے اور وہ وکلاء حکمت عملی طے کریں گے، ہم افواہ سازی کو ختم کرنے کے لئے یہاں پیش ہوئے ہیں کہ یہ مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے، ہمارے مطالبے کی بنیاد ہے اس کے پیچھے بد نیتی نہیں ہے۔ بادی النظر میں ہے بہتر ہے تریسٹھ اے کی تشریح کی درخواست کو یکجا کیا جائے اور فل کورٹ کا تجزیہ لیا جائے کیونکہ اس کے مستقبل کی سیاست پر بھی دو رس نتائج ہوں گے،یہ ایک جائز مطالہ ہے
اسے افواہوں کی نظر نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں کروڑوں لوگ بستے ہیں، وزیراعلیٰ اور کابینہ بنتے ہیں تو حکومت مکمل ہوتی ہے،فاضل عدالت نے بھی اپنی سماعت میں کہا ہے کہ صوبہ وزیر اعلیٰ اور کابینہ کے بغیر نہیں رہ سکتے اور ہم اس حوالے س یآرڈر پاس نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمان گہری باتیں کرتے ہیں وہ ناپ تول کر بات کرتے ہیں، ان کے بات کے میٹریل کی بنیاد پر کی ہے اس کا جواب میں نہیں دے
سکتا۔عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ فواد چوہدری حماد اظہر اور ایک چینل مل کر ٹرینڈ چلا رہے ہیں، سب کو پتہ ہے اداروں کے خلاف ٹرینڈ کون چلایا کرتا تھا،فواد چوہدری کے دور میں وزارت سے توہین آمیز ٹرینڈ چلایا جاتاتھا آج بھی چل رہا ہے، اداروں کے سربراہان کانام لے کر گالیاں دی جاتی ہیں اس کے پیچھے فواد چوہدری موجود ہیں۔ جس طریقے سے الزامات لگائے جارہے ہیں ہم انہیں مسترد کرتے ہیں۔ فواد چوہدری سے کہنا چاہوں گاکہ آپ جو
ٹرینڈ چلوا رہے ہیں جہاں سے فنڈنگ آ رہی ہے اور آپ نے چند ہفتے پہلے ہی جو پریس کانفرنسز کی وہ عوام کے سامنے ہے،آپ کی ایک ضرور خاصیت ہے آپ ہر وقت پارٹیاں بھی تبدیل کرتے ہیں آپ سے بہتر خوشامدی میں نے نہیں دیکھا آپ کی ایک خامی ہے آپ نے زندگی میں کبھی سچ نہیں بولا۔ آپ نے کل پھر پارٹی تبدیل کرنی ہے جن کو آپ القابات سے نواز رہے ہیں کل ان کی تعریفیں بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سب کا مطالبہ ہے کہ تریسٹھ اے
کی تشریح کا فل کورٹ کا فیصلہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کر سکے گا او ر ماضی میں بھی یہ روایات رہی ہیں کہ اہم قانونی معاملات ہوں فل کورٹ بٹھایا جاتا تھا ۔ ابھی تک چوہدری شجاعت کا لیٹر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور اس کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ اسد عمر نے جو لیٹر دیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کی ہدایت ہے کہ پرویزالٰہی کو ووٹ ڈالا جائے اور پچیس لوگوں کے ووٹ کوشمار نہیں کیا گیا۔ (ق) لیگ کے پارلیمانی لیڈر کا نام ہی
کسی کو معلوم نہیں کہ ساجد نامی شخص پارلیمانی لیڈر ہے۔عدالتی فیصلوں میں کہا چکا ہے کہ پارٹی صدر کو لا محدود اختیارات حاصل ہیں وہ فیصلہ کر دے تو حتمی ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ کب ہوئی فوٹیج کہاں ہے منٹس کہاں ہے یہ سب چیزیں غور طلب ہیں۔فل کورٹ کا مطالبہ وکلاء سول سوسائٹی بھی کر رہے ہیں اگر یہ مطالبہ آرہا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ فل کورٹ بٹھایاجائے اور فیصلہ کردیاجائے۔ چوہدری شجاعت نے اپنی پارٹی کے اراکین کو ڈائریکشن دی کہ حمزہ شہباز کو ووٹ کاسٹ کیا جائے اور ڈپٹی سپیکر نے فون پر تصدیق کی، اس مسئلے کا فل کورٹ کے علاوہ کوئی حل اور آپشن نہیں ہے۔