لاہور (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے خلاف پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ چوہدری شجاعت کا بطورپارٹی سربراہ خط آئندہ سماعت پرپیش کیا جائے۔ ہفتہ کو جاری تحریری حکم کے مطابق سماعت کے دوران فریقین کو سننے کے بعد محسوس کیا انہیں جواب دینے کیلئے وقت چاہیے
، نوٹ کیا کہ ابھی فریقین ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کاجواز دینے سے قاصر ہیں، اسی لیے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز خطرے میں ہیں، اس صورتحال میں انہیں منتخب وزیراعلیٰ نہیں کہا جا سکتا، یہ ایسی ہی صورتحال ہے جیسی یکم جولائی کوتھی۔تحریری حکم میں کہا گیا کہ صوبے کوبغیر وزیراعلیٰ اورکابینہ کے نہیں رکھا جا سکتا، یکم جولائی کو فریقین کی مرضی سے حکم دیاتھاکہ حمزہ شہباز ٹرسٹی وزیراعلیٰ ہوں گے، ہمیں یقین دلایاگیاوزیراعلیٰ اورکابینہ اس درخواست کے فیصلے تک ٹرسٹی کے طور پر کام کریں گے، یکم جولائی کو اختیارات محدود کیے تھے تاکہ حمزہ شہباز اپنی سیاسی جماعت کوفائدہ نہ پہنچاسکیں۔حکم نامے کے مطابق ڈپٹی اسپیکرکے وکیل آئین کے آرٹیکل 63 اے ون بی کے تناظر میں رولنگ کادفاع نہیں کرسکے، ڈپٹی اسپیکر کے وکیل کے مطابق انہیں دوگھنٹے پہلے ہی انگیج کیاگیا۔عبوری حکم میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے فریقین کو تجویز دی حمزہ شہباز محدود اختیارات کے ساتھ وزیراعلیٰ رہیں، حمزہ شہبازکو ٹرسٹی وزیراعلیٰ رکھنے پرکسی فریق نے اعتراض نہیں کیا، فریقین معاملے کی حساسیت اور امن وعامہ کی صورتحال کوسمجھ گئے، اس لیے اعتراض نہیں کیا جبکہ عدالت کویقین دلایاگیاہے فیصلے تک حمزہ شہبازبطور وزیراعلیٰ اختیارات محدود رکھیں گے۔عدالت نے حکم دیا کہ پنجاب حکومت اور ڈپٹی اسپیکر اپنے بیانات اوردستاویزات 25 جولائی کوپیش کریں
اور ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری تمام متعلقہ ریکارڈعدالت میں پیش کرنیکویقینی بنائیں۔عدالت نے حکم دیا کہ چوہدری شجاعت کا بطورپارٹی سربراہ خط بھی آئندہ سماعت پرعدالت میں پیش کیاجائے۔تحریری حکم کے متن میں ہدایت دی گئی ہے کہ فریقین اپنیجواب 25 جولائی 11 بجے تک جمع کرادیں
اورکیس کی سماعت پیرکو ایک بجے ہوگی۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی۔عدالت نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ
حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کریں گے، وزیر اعلیٰ کے اختیارات محدود رہیں گے، تمام تقرریاں میرٹ پر ہوں گی،
میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں ہوئیں تو کالعدم کر دیں گے، وزیراعلیٰ سیاسی فائدے کے لیے کچھ نہیں کریں گے، سپریم کورٹ کا وزیر اعلیٰ پر چیک رہے گا، بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے۔