اسلام آباد (آن لائن)پاکستان تحریک انصاف نے کراچی کے حلقہ این اے 240 میں ضمنی انتخاب کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کردیا۔اتوار کے روز چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی زیرصدارت سیاسی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا جس میں ملکی مجموعی سیاسی صورتحال پر تفصیلی
تبادلہ خیال کیا گیا،تحریک انصاف سندھ کے صدر علی حیدر زیدی کی جانب سے این اے 240 میں ضمنی انتخاب کے حوالے سے مفصل رپورٹ پیش کی گئی،سیاسی کمیٹی کی جانب سے محض ایک حلقے میں پرامن طور پر صاف و شفاف انتخابات کے نفاذ میں ناکامی پر الیکشن کمیشن کی استعدد و صلاحیت پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا،تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کی جانب سے این اے 240 کے ضمنی انتخاب کو مکمل طور پر کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی۔عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این اے 240 میں صاف و شفاف انتخاب کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی مایوس کن ہے،محض 8 فیصد لوگوں کی ووٹنگ میں شمولیت بڑے پیمانے پر عوام کے انتخابی عمل سے لاتعلقی کا اظہار ہے،الیکشن کمیشن کی جانب سے تشدد اور دھاندلی کی غیر معمولی اطلاعات کے باوجود انتخاب کو کالعدم قرار نہ دینے کا فیصلہ باعث تعجب ہے،انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں 40 فیصد ٹرن آؤٹ کے باوجود انتخاب کالعدم قرار دیا تھا،الیکشن کمیشن کی فیصلہ سازی میں دوہرے معیارات،کمیشن کے کردار پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں،الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دے کر از سرنو انتخاب کے انعقاد کا شیڈول جاری کرے،کراچی کے حلقہ این اے 240 میں ضمنی انتخاب سے متعلق سیاسی پارٹی کے اجلاس
میں پیش کی جانے والی مفصل رپورٹ کے اہم نکات میں کہاگیا ہے کہ کراچی میں حلقہ 240 میں 16 جون 2022 کو الیکشن ہوا،حلقہ 240 میں مجموعی ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 29 ہزار 8سو 55 ہے،ضمنی انتخاب میں 39 ہزار 7سو 29 افراد نے ووٹ کاسٹ کیا،حلقہ 240 میں ووٹر ٹرن آوٹ 9 فیصد سے بھی کم رہا،2018 میں حلقہ 240 میں 37 فیصد افراد نے ووٹ ڈالا،ضمنی انتخاب والے دن حلقے میں لڑائی جھگڑے،سیاسی قائدین پر حملوں کا
سلسلہ جاری رہا،رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ لڑائی جھگڑوں کے نتیجے میں 1 شخص ہلاک،10 افراد زخمی اور ایک انتہائی سنجیدہ حالات میں مبتلا ہے،الیکشن کمیشن صاف و شفاف انتخاب کے انعقاد میں ناکام رہا ہے،ووٹوں کی پرچیاں اور بیلٹ باکسز چوری ہوتے رہے،انتخاب میں حصہ لینے والی بیشتر جماعتوں،پاک سرزمین پارٹی،تحریک لبیک پاکستان اور ایم کیو ایم حقیقی نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا،حلقہ 240 میں دفعہ 144 نافذ رہی، محض 8 فیصد ٹرن آؤٹ پر یہ حالات رہے تو اگر زیادہ ٹرن آوٹ ہوتا تو کیا حالت ہوتے۔