ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاکستان پر قرضوں کا پہاڑ 37 سے 122 ارب ڈالر ہوگئے

datetime 18  مئی‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارم (آئی پی آر) نے اپنی 41 صفحات پر مشتمل رپورٹ جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان اکنامکس سروے آف پاکستان اور پاکستانی معیشت کے متعلق آئی ایم ایف کے تخمینہ جات پر محیط ہے میں پاکستان کی موجودہ اقتصادی بدحالی قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ درآمدات میں نامعقول اضافے توازن ادائیگی میں یکطرفہ منفی رجحان

ملکی انرجی کی ضروریات سے عہدہ برآں ہونے کیلئے مایہ قدرتی گیس کی درآمد پر غیر ملکی انحصار کے حوالے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ (جاریہ اخراجات) کو اب بھی بطریق احسن نظم و ضبط میں لایا جا سکتا ہے.اس کیلئے پاکستانی معیشت میں تین فیصد کی سالانہ شرح نمو درکار ہو گی البتہ جی ڈی پی کی پانچ فیصد گروتھ سے معاملہ ہاتھ سے نکل جائیگا کیونکہ اس صورت میں ملک کی پروڈکشن استعداد بلڈ کرنے کیلئے مشینری کی امپورٹ میں اضافہ ہو گا۔ جب تجارتی خسارہ بڑھتا جائیگا تو پاکستانی معیشت کے قرضوں کا لیول بھی بڑھے گا۔روزنامہ جنگ میں حنیف خالد کی خبر کے مطابق پاکستان میں ٹیکسوں سے حاصل شدہ رقم میں سے 38 فیصد قرضوں اور انکے سود کی ادائیگی 19 فیصد سبسڈیز اینڈ گرانٹ 18 فیصد ڈیفنس 9 فیصد پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام 7 فیصد سول گورنمنٹ 6 فیصد پنشن پر خرچ ہونے لگا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسیز ریفارم کی رپورٹ کی شہ سرخی یہ لکھی گئی ہے پاکستان پر قرضوں کا پہاڑ ہو گیا ہے اس سے نمبرد آزما ہونے کیلئے پاکستان کو کیا کرنا چاہئے۔

پاکستان پر قرضوں کا آج جو بوجھ ہے2021 کے اعداد و شمار کے مطابق پیرس کلب کے 8.8 فیصد ملٹی لیٹرل قرضے 27.6 فیصد دوسرے بائی لیٹرل 16 فیصد، بانڈ یورو سکوک 6.4 فیصد ،کمرشل لون بشمول پی ایس ای 8.4 فیصد گورنمنٹ کی فارکس ذمہ داریاں 7.2 فیصد ہو گئی ہیں۔

جون 2021 میں پبلک ڈیٹ (بمشول پی ایس ای) پبلک سیکٹر انٹرپرائزز پر قرضے جون 2021 تک 102 ارب بیس کروڑ ڈالر پبلک اینڈ گریٹڈڈ قرضے 95 ارب بیس کروڑ ڈالر ملٹی لیٹرل پیرس کلب اور دوسرے بائی لیٹرل قرضے 55 ارب 20 کروڑ ڈالر بانڈز سکوک کمرشل سترہ ارب پچاس کروڑ ڈالر، پرائیویٹ قرضہ جات نان گریٹڈڈ دس ارب نوے کروڑ ڈالر، فارکس گرانٹی شدہ ذمہ داریاں آٹھ ارب 80 کروڑ ڈالر، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (پی ایس ای) 6 ارب ستر کروڑ ڈالر ،آئی ایم ایف سات ارب چالیس کروڑ ڈالر ،بنک پانچ ارب 30 کروڑ ڈالر،یہ مجموعی قرضہ 30 جون 2021 تک 122 ارب بیس کروڑ ڈالر ہو گیا۔ آفیشل لیکورڈ 17 ارب چالیس کروڑ ڈالر جی ڈی پی کا ایکسٹرنل ڈیٹ اینڈ ادائیگی 35 ارب ڈالر اس کے علاوہ ہیں۔

پاکستان کی جی ڈی پی 347 ارب ڈالر کی ہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار سٹیٹ بنک آف پاکستان کے سالانہ اکنامی رپورٹ سے لئے گئے ہیں۔ رپورٹ کےمطابق اہم بات یہ ہے کہ جن سالوں میں تجارتی خسارہ ہائر مارجن سے بڑھ رہا ہے اس کے نتیجہ میں قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان کو موجودہ اقتصادی بدحالی سے نکلنے کیلئے کی بھی بات کی گئی ہے اور یہ کہ پاکستان ہائیر گروتھ کی طرف جانا چاہتا ہے اس کے نتیجے میں مشینری سے سمیت امپورٹ کو بڑھا رہا ہے جس سے تجارتی خسارے میں اضافہ ہونے سے جاری اخراجات کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کی اکنامی کا موجودہ سٹرکچر دو سے تین فیصد زیادہ گروتھ ریٹ کا متحمل تو ہو سکتا ہے، پاکستان کی برآمدات اور ترسیلات زر دو سے تین فیصد سے زیادہ اقتصادی گروتھ سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتیں۔

ملکی برآمدات اور ترسیلات زر درآمدات کا بوجھ اٹھا سکتی ہیں لیکن جب اقتصادی گروتھ پانچ فیصد تک ہو جائے تو ایڈیشل قرضہ جات سے اضافی امپورٹ کرنا ہونگی اس کے نتیجہ میں شرح سود بڑھے گی اور کرنٹ اکائونٹ کا بحران جنم لے گا۔ یہی صورتحال اس وقت ہو گی جب ضروری درآمدات کی قیمتیں بڑھیں جیسا انرجی اور اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہو جائے۔ اقتصادی انفراسٹرکچر اور انسانی وسائل اور ادارہ جاتی اثاثہ جات معیشت کو تین فیصد تک شرح نمو دینے کیلئے کافی ہیں۔

مسئلہ اس وقت جنم لیتا ہے جب تین فیصد سے زیادہ گروتھ اکنامی کرنے کی خواہش جنم لیتی ہے یا اس کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں کیونکہ معیشت میں ہائی گروتھ کیلئے درکار ضروری سرمایہ مہیا کرنے کی صلاحیت نہیں ۔انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز کا کہنا ہے کہ کسی بھی معیشت کیلئے دو سے تین فیصد شرح نمو قابل قبول نہیں۔

رپورٹ کےمطابق پاکستان کی حکومت کو افغان ٹرانزٹ امپورٹ افغان سرزمین پر پہنچنے کے بعد واپس پاکستان میں داخل (سمگلنگ کے ذریعے)کئے جانے کو روکنا ہو گا کیونکہ اس سے پاکستانی مینوفیکچرنگ کو سیکٹر بے پناہ نقصان پہنچے گا۔

رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ حکومت پاکستان کو ترسیلات زر کا ایک مخصوص حصہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی کیلئے مختص کرنا ہو گا نہ کہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید غیرملکی قرضے لئے جاتے رہیں۔

اس طرح پاکستانی قوم پر قرضوں کا جو پہاڑ بن گیا ہے اس کی بتدرج ادائیگی کیلئے ایک واضح شفاف ٹارگٹ مختص ہو گا۔ اگر حکومت ترسیلات زر کا دس فیصد زرمبادلہ بھی غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے مخصوص کر دے تو اس سے تین ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے واپس ہو سکیں گے اور اسطرح چونکہ امپورٹ کیلئے پاکستان کے پاس کم فارن ایکسچینج ہو گا تو اس کے نتیجہ میں حکومت پاکستان اپنی امپورٹس محدود کریگی اور پاکستان میں درآمدات کے متبادل تلاش ہونا شروع ہو جائیں گے۔

جس طرح پاکستان کو سعودی عرب نے تیل کی ادائیگی تاخیر سے کرنے کی سہولت نہ صرف دی ہے بلکہ اس نے وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورے کے دوران توسیع بھی کر دی ہے اس طرح حکومت کو ایسی ہی سہولت برادر اسلامی ملک قطر سے حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرنی چاہئے ۔

حکومت قطر کیساتھ شاہد خاقان عباسی کے ذریعے پندرہ سال کیلئے ایل این جی کے آٹھ کارگو ماہانہ پانچ سے پندرہ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو حاصل کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہے حالانکہ گذشتہ موسم سرما میں انٹرنیشنل سپارٹ ایل این جی پرائس 30 سے 35 اور چالیس ڈالر پر چلی گئی تھی اور پی ٹی آئی حکومت کے ایک نہیں تین چار کارگو اٹلی اور دوبئی کی ٹریڈنگ کمپنیوں نے 25, 30 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر کئے گئے معاہدے منسوخ بھی کئے جس سے پاکستان نے ایل این جی کا بحران آیا ہوا ۔

حکومت پاکستان کو قطر سے درخواست کرنا ہو گی کہ وہ ایل این جی کی قیمت کا کچھ حصہ پاکستانی کرنسی روپے میں لے لیا کرے اور ایل این جی جو پہلے ہی پانچ سے پندرہ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے اس کے ایک حصے کو انٹرسٹ فری موخر کر دے تو اس سے بھی پاکستان کی معیشت کو بڑا سہارا ملے گا۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارم کی رپورٹ کے مطابق مالی سالی 2011 میں پاکستان کو ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر سالانہ سود کی مد میں ادا کرنا ہو گا ۔گذشتہ چار سالوں کی (پی ٹی آئی حکومت) میں پاکستان نے سالانہ دو ارب ستر کروڑ ڈالر کے قرضے اور سود واپس کئے۔

مالی سال 2018 سے مالی سال 2021 تک پی ٹی آئی حکومت کو دس ارب ستر کروڑ ڈالر کا مجموعی سود ادا کرنا پڑا۔ پاکستان نے گذشتہ بیس سالوں میں جتنے قرضے لئے تھے اس سے بھی کہیں زیادہ ادائیگی کی۔

ان بیس سالوں میں پاکستان نے 112 ارب ساٹھ کروڑ ڈالر حاصل کئے اور اصل زر بمعہ سود 118 ارب ڈالر واپس کئے اس کے باوجود مالی سال 2001 میں پاکستان کے ذمے صرف 37 ارب بیس کروڑ ڈالر کے قرضے تھے۔ مالی سال 2021 میں ان غیرملکی قرضوں میں 228 فیصد اضافے کے ساتھ پاکستان پر 122 ارب بیس کروڑ ڈالر کے قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہو گیا ہے ۔

پاکستان نے اصل زر تک کئی بار واپس کر رکھا ہے اس کے باوجود ہم دنیا کے مالیتی اداروں کے مقروض ہیں۔ یہ اس لئے ہو رہا ہے کہ اکثر اوقات پاکستان نئے قرضے ماضی کے قرضوں کی واپسی کیلئے دینے لگا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان ستر فیصد نئے قرضے توازن ادائیگی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے دینے پر مجبور ہو گیا ہے۔

آئی پی آر کےمطابق پاکستان کا اوسط قرضہ اگرچہ کم ہوا ہے لیکن قرضے کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ 2010 سے 2021 کے عرصے میں کم لاگت کے طویل المیعاد پیرس کلب قرضے کل قرضوں کے 25 فیصد کے بجائے 8.8 فیصد رہ گئے ہیں۔ ملٹی لیٹرل قرضٗے جو رعایتی قرضوں کا دوسرا سورس ہیں وہ بھی 42.7 فیصد سے کم ہو کر 27.6 فیصد رہ گئے ہیں اس کےمقابلے میں ہائی کاسٹ بانڈز کا / سکوک کا حصہ 2.7 سے بڑھکر 6.4 فیصد ہو گیا ہے ۔

مالی سال 2021 میں پاکستان نے جو تین بانڈز انٹرنیشنل مارکیٹ فلوٹ کئے ان کی لاگت 6 فیصد اور 8.9 فیصد تک ہے ۔کمرشل قرضوں کا شیئر جو 2010 میں زیرو ہوا کرتا تھا 2021 میں مجموعی قرضوں کا 8.4 فیصد تک چلا گیا ہے۔

ان کی لاگت پانچ فیصد کی رینج میں ہے۔ دوسرے بائی لیٹرل قرضے جو زیادہ تر چائنا کے ہیں ان کا شیئر تین فیصد سے بڑھ کر سولہ فیصد ہو گیا ہے۔ ان کی لاگت پیرس کلب قرضوں سے زیادہ ہے۔ اس طرح کل قرضوں کا 68 فیصد شیئر آئی ایف آئی (انٹرنیشنل فنانشل انسٹی ٹیوٹس) اور پیرس کلب سے ہوا کرتا تھا اب وہ کم ہو کر 36.4 فیصد رہ گیا ہے جبکہ ٹول بانڈز کمرشل لونز اور دوسرے بائی لیٹرل قرضے مجموعی قرضوں کے 6 فیصد سے بڑھکر 31 فیصد تک چلے گئے ہیں۔

اس سے نہ صرف غیرملکی قرضہ بڑھا ہے بلکہ ہائی کاسٹ والا قرضہ زیادہ اور رعایتی قرضہ کم ہو گیا ہے۔ حکومت کی وقتاً فوقتاً مارکیٹ بیسٹ فنانسنگ باعث تشویش ہے۔ آج یہ حیران کن بات نہیں سمجھی جا رہی کہ سسٹین ایبلٹی انٹی گریٹر پہلے سے بدتر ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارم کی تجویز ہے کہ غیرملکی قرضے ان پروجیکٹوں کیلئے فنانس ہوں جو جی ڈی پی گروتھ کا موجب بنیں، برآمدات میں اضافے کریں تاکہ معیشت ان قرضوں کی واپس ادائیگی کرسکے۔

اگر نئے قرضوں کا ستر فیصد ادھر ادھر خرچہ ہوتا رہا تو ملکی معیشت ان قرضوں کی واپسی کی متحمل نہ ہو گی۔ ہمارے دیہات کے بزرگ اکثر یہ بات ضرور یہ سمجھتے ہیں کہ جو رقم سود کی ادائیگی پر خرچ ہو گئی چاہے وہ ملکی قرضے ہوں یا غیرملکی تو اس کے نتیجے میں حکومت کے سالانہ اخراجات جو 38 فیصد ہیں ان کی واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ گذشتہ تین سالوں میں پاکستان کی حکومت نے وفاقی ریونیو کا 78 سے 103 فیصد سود کی ادائیگی پر خرچ کیا۔

قرضوں سے دوسرے اخراجات پورے کئے، ہم قرضوں پر قرضے لیتے چلے گئے اور آج قرضوں کا پہاڑ پاکستان کے سر پر ہے۔ ان قرضوں کے پہاڑ سے چھوٹا موٹا کام تو چل سکتا ہے لیکن معیشت اس سے نہیں چلے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے پاس ایکسپورٹ ایبل سرپلس نہیں ہے۔ چین کے ساتھ تجارت ہو اس میں ہمیں لامحدود خسارہ ہے چین ہم سے ضرورت کی چیزیں مانگ رہا ہے مگر ہمارے پاس اس کی ضرورت والی چیزیں برآمد کرنے کا بندوبست نہیں ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…