پیر‬‮ ، 04 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاک فوج کے ترجمان نے عمران خان کے 3 بیانات کی تردید کر دی، اعزاز سید تفصیلات سامنے لے آئے

datetime 14  اپریل‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ) معروف صحافی اعزاز سید نے پاک فوج کے ترجمان کے بیان کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ فوجی ترجمان نے عمران خان کی تین باتوں کی تردید کی اول یہ کہا کہ امریکہ کی طرف سے کوئی سازش نہیں ہوئی، دوئم یہ کہ فوج نے نہیں بلکہ عمران خان نے فوج سے رابطہ کرکے تحریک عدم اعتماد واپس کروا کر استعفے کی بات کی

اور سوئم یہ کہ (عمران خان کے دعوے کے برعکس) امریکہ نے اڈے مانگے ہی نہیں۔واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا کوئی ذکر نہیں، فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی،عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا سرچشمہ ہے، افواہوں کی بنیاد پر پاک فوج کی کردار کشی کسی طور قبول نہیں، فوج کی تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں،ملک میں کبھی مارشل لاء نہیں آئیگا ،آرمی چیف 29نومبر کو اپنی مدت پوری کر کے ریٹائرڈ ہو جائیں گے وہ نہ تو سیع کا مطالبہ کر رہے ہیں اور نہ ہی قبول کر یں گے،پارلیمنٹ،سپریم کورٹ اور مسلح افواج جمہوریت کے محافظ ہیں،پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت میں ہے ،امریکہ نے کبھی فوجی اڈوں کا مطالبہ نہیں کیا اگر مطالبہ کرتے تو ہمارا بھی وہی جواب ہوتا جیسے عمران خان نے دیا ،عدالتیں آزاد ہیں اور آزادی کے ساتھ فیصلے دے رہی ہیں،بی بی سی کی رپورٹ واہیات سٹوری ہے،آرمی چیف طبیعت ناسازی کی وجہ سے وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہ کر سکے ،فوج کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے سب سے گزارش ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ۔ کسی نے بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو وہ آنکھ نکال دی جائیگی۔

وزیراعظم آفس سے آرمی چیف کو اپروچ کیا گیا کہ اس میں بیچ بچاؤ کی بات کریں، سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی تو آرمی چیف اور ڈی جی وہاں گئے، مختلف رفقاء سے بیٹھ کر تین چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں استعفیٰ، تحریک عدم اعتماد کی واپسی اور اسمبلیاں تحلیل کرناشامل تھیں۔جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آپ کو پاکستان کی قومی سلامتی، پاکستان

آرمی کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں ، آپریشن ردالفساد کے تحت حالیہ اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنا ہے اور فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں ہونے والی بات چیت پر بھی آگاہی دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشنز کور کمانڈر کانفرنس ہوئی اور اس میں پاکستان آرمی کے تمام فارمیشن کمانڈرز نے شرکت کی، کانفرنس کے شرکا کو پاک فوج کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں درپیش

سکیورٹی چیلنجز ان کے حوالے سے سکیورٹی اور انٹیلی جنس بریفنگ دی گئیں جبکہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی سے بھی اگاہ کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کی بارڈر سکیورٹی مکمل طور پر برقرار ہے اور مسلح افواج اور متعلقہ ادارے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ فارمیشن کمانڈر بریفنگ میں آپریشن ردالفساد کے تحت انٹیلی کی بنیاد پر آپریشنز اور مغربی سرحدوں کی

مینجمنٹ کے حوالے آگاہ کیا گیا، پچھلے چند مہینوں میں بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں نے امن عامہ کو خراب کرنے کی بے انتہا کوشش کی لیکن ہمارے بہادر آفیسرز اور جوانوں نے ان مذموم عزائم کو بھرپور طریقے سے ناکام بنایا۔انہوں نے کہا کہ اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 128 دہشت گردوں کو ہلاک اور 270 کو گرفتار کیا گیا اور ان آپریشنز کے دوران 97 ا?فیسرز اور جوانوں نے شہادت نوش کیا، پوری قوم ان بہادر

سپوتوں اور ان کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہماری جنگ انشااللہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اسی دوران عالمی امن کے قیام کی خاطر اقوام متحدہ کے تحت امن مشن کانگو میں تعینات پاکستان آرمی کے چھ آفیسرز اور جوانوں نے 29مارچ کو فرائض کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش کیا، اب تک پاکستان فوج کے 168 افسران اور جوان مختلف اقوا م

متحدہ مشن کے دوران بین الاقوامی امن کی کوششوں کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، ان قربانیوں کا اعتراف اقوام متحدہ میں اعلیٰ ترین سطح پر کیا گیا۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ فارمیشن کمانڈرز نے ملکی سلامتی کے حوالے سے لیے گئے اقدامات بالخصوص اندرونی سکیورٹی کی مد میں پاکستان آرمی کی آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے سلسلے میں مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اسے درست

سمت میں بہترین قدم قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ سب نے اتفاق کیا کہ جمہوریت، اداروں کی مضبوطی، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہترین ملکی مفاد کی ضمانت ہے، عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے، اس کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے، اس لیے مسلح افواج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کا سبب بننے والی کوئی دانستہ یا غیردانستہ کوشش وسیع تر ملکی قومی مفاد

کے منافی ہے۔انہوں نے کہا کہ تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن افواہ سازی کی بنیاد پر سازشوں کے تانے بانے بننا اور بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، اس حوالے سے افواج پاکستان اور اس کی قیادت کے حوالے سے ایک منظم گھناؤنا پراپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے اور حتیٰ کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے معاشرے میں عوام اور فوج کے درمیان تقسیم اور انتشار پھیلایا جا رہا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ

غیرقانونی، غیراخلاقی اور ملک کے مفاد کے سرسر خلاف ہے، جو کام دشمن سات دہائیوں میں نہیں کر سکا، وہ کام ہم اب بھی نہیں ہونے دیں گے، عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، ہم اس سے باہر رہنا چاہتے ہیں، نہ یہ مہم پہلے کامیاب ہوئی تھی نہ یہ آگے کامیاب ہو گی، بہتر ہو گا کہ ہم اپنے فیصلے قانون پر چھوڑ دیں کیونکہ قانون پر عملدرآمد سے ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کسی نے

بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو وہ آنکھ نکال دی جائیگی۔ ملک میں انتشار کیلئے ریٹائرڈ فوجی افسران کی جعلی آڈیو کا ل چلائی گئیں۔ پاک فوج کے خلاف تانے بانے بننا کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے سامنے مطالبات اسٹیبشلمنٹ کی طرف سے نہیں رکھے گئے بلکہ جب یہ ڈیڈ لاک برقرار تھا تو وزیراعظم آفس سے آرمی چیف کو اپروچ کیا گیا کہ اس میں بیچ بچاؤ

کی بات کریں، سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی تو آرمی چیف اور ڈی جی وہاں گئے، مختلف رفقاء سے بیٹھ کر تین چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں استعفیٰ، تحریک عدم اعتماد کی واپسی اور اسمبلیاں تحلیل کرناشامل تھیں، تیسرے آپشن پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ قابل قبول ہے، ہماری طرف سے ان سے بات کریں۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے جو بات قومی سلامتی کمیٹی

میں ہوئی وہ اعلامیے میں شامل ہے، ہماری خفیہ ایجنسیاں تمام خطرات کے خلاف چوکنا ہیں اور خفیہ ایجنسیوں سمیت تمام ادارے بھرپور طریقے سے کام کررہے ہیں، ہم پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق ایک سوال پر ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی قیادت نے ہر دور میں ایٹمی پروگرام کے لیے کردار ادا کیا، ہمارے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں، ایٹمی پروگرام کو

سیاسی مباحثوں کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ ایٹمی اثاثے کسی سیاسی قیادت سے منسلک نہیں۔ اب تک جتنی حکومتیں آئی ہیں انہوں نے اس پروگرام کو ایماندار ی سے آگے بڑھا یا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ، ایٹمی اثاثوں کا کسی سیاسی قیادت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ امریکہ کی جانب سے فوجی اڈ ے مانگنے کے سوال پر انہوں نے کہا فوجی اڈے مانگے ہی نہیں گئے اگر مانگے جاتے تو پاک فوج کا بھی وہی موقف ہو تا جو

وزیراعظم کا تھا یعنی ایبسلوٹلی ناٹ ۔ 9اپریل کے حوالے سے بی بی سی کی بے بنیاد اور من گھڑت خبر ہے وزیراعظم ہائوس کوئی نہیں گیا ۔ آرمی چیف 29نومبر کو اپنی مدت پوری کر کے ریٹائرڈ ہو جائیں گے وہ نہ تو سیع کا مطالبہ کر رہے ہیں اور نہ ہی قبول کر یں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بقاء اور مستقبل صرف جمہوریت میں ہے ۔ پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا ۔عدالتیں فوج کے ماتحت نہیں وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں،

پارلیمنٹ،سپریم کورٹ اور مسلح افواج جمہوریت کے محافظ ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو این آر او دینے کے سوال پر بابر افتخار نے کہا کہ فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں، فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی؟ وہ اپنا کام کررہی ہے۔ منفی مہم میں صرف فوج نہیں سب زد میں آرہے ہیں، آرمی چیف ایک ادارے کے سربراہ ہیں اور یہ ادارہ حکومت کے ماتحت ہے اگر سیاسی تقاریر میں آرمی چیف کا نام لیا گیا ہے تو یہ پوچھنا کس کا کام ہے؟فوج کے اندر کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے پاک فوج یونٹی آف کمانڈ پر چلتی ہے

جس طرف آرمی چیف دیکھتا ہے 7 لاکھ فوج ادھر ہی دیکھتی ہے ۔ وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف کی عدم شرکت کے ایک سوال پر انہو ں نے کہا آرمی چیف کی طبیعت ناساز تھی جس کے باعث وہ تقریب حلف برداری میں نہیں شرکت کر سکے وہ اس دن آفس بھی نہیں آئے تھے ۔ فوج اور عمران خان کے درمیان کوئی ایشو نہیں ۔ پاکستان کی حکومتیں منتخب ہو کر آتی ہیں اور عوام کی طاقت کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہے۔ جلسو ں میں اداروں کو نشانہ بنانے سے اجتناب کر نا چاہے فوج یا سربراہ کی کردار کشی پر ایکشن لینا حکومت کاکام ہے ۔ الیکشن کب ہو نا ہے یہ ہمار ا کام نہیں حکومت کا کام ہے ۔

موضوعات:



کالم



آرٹ آف لیونگ


’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…

ڈنگ ٹپائو

بارش ہوئی اور بارش کے تیسرے دن امیر تیمور کے ذاتی…