منگل‬‮ ، 08 جولائی‬‮ 2025 

افغان شہری خاندان کا پیٹ پالنے کیلئے گردے بیچنے پر مجبور ہو گئے

datetime 2  مارچ‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ہرات (این این آئی)طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد افغانستان مالی بحران میں ڈوب گیا’غیر ملکی امداد کی بندش کے باعث افغانستان کے حالات بدسے بدتر ہو گئے’۔ کئی دہائیوں سے جنگ کے شکار افغانستان میں اب ایک سنگین انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔وہ غیر ملکی امداد جو اس ملک کو اقتصادی سہارا دیتی تھی، اب بند ہو چکی ہے۔ طالبان کی حکومت پر مغربی ممالک بھروسہ نہیں کر پا رہے۔

افغانستان کے بیرون ملک اثاثے منجمد ہیں اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد بھی بہت محدود ہے۔ انہی بدتر حالات کے پیش نظر مغربی افغان صوبہ ہرات کے شہری اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔مریض کو ایک گردے کے عوض پندرہ سو سے لے کر ڈھائی ہزار امریکی ڈالر تک کی رقم ملتی ہے۔ہرات کے مضافات میں سہ شنبہ بازار کئی برسوں کی بدامنی اور خونریزی کے باعث بے گھر ہونے والے سینکڑوں افراد کا ایک گاؤں ہے۔یہ رویہ مغربی افغان شہر ہرات میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ شہر کی ایک نواحی بستی کو ”گردوں والا گاؤں”’ کا نام دے دیا گیا ہے۔شمالی شہر مزارِ شریف کے ایک ہسپتال کے سابق سرجن پروفیسر محمد وکیل متین کا کہنا ہیکہ افغانستان میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس کے ذریعے یہ کنٹرول کیا جائے کہ جسمانی اعضاء کو کیسے عطیہ یا فروخت کیا جا سکتا ہے، لیکن گردہ فروخت کرنے والے کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔محمد بصیر عثمانی ان دو ہسپتالوں میں سے ایک میں سرجن ہیں، جہاں ہرات کے گردوں کی پیوند کاری کے زیادہ تر آپریشن کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ رضامندی حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ہم گردے فروخت کرنے والوں سے تحریری رضامندی اور ایک ویڈیو ریکارڈنگ بھی لیتے ہیں۔ عثمانی کہتے ہیں کہ یہ ان کا کام نہیں کہ تحقیق کریں کہ مریض یا گردے فروخت کرنے والے افراد کہاں سے آتے ہیں اور کیوں آتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں یہاں گردوں کی پیوند کاری کے ہزاروں آپریشن کیے جا چکے ہیں۔گردوں کی اس تجارت کے حوالے سے طالبان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو کوئی جواب نہ دیا تاہم عثمانی کہتے ہیں کہ طالبان کے پاس گردوں کی تجارت کو روکنے کا منصوبہ ہے اور وہ اس کو منظم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں۔پیسوں کے لیے بے تاب افغان شہری اس عمل میں ملوث سہولت کاروں سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ سہولت کار ان افغان شہریوں کو امیر مریضوں سے ملواتے ہیں جو دور دراز علاقوں بعض اوقات بھارت یا پاکستان سے بھی گردوں کے ٹرانسپلانٹ آپریشن کروانے کے لیے ہرات آتے ہیں۔ یہ مریض ہسپتال کا خرچ ادا کرنے اور گردے فروخت کرنے والے کو معاوضہ دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس گاؤں کو اب گردوں والا گاؤں کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں کے درجنوں رہائشیوں نے اپنے جسمانی اعضاء بیچ کر اپنے اپنے خاندانوں کی مالی مدد کی۔یہاں ایک ایسا خاندان بھی ہے جس کے پانچ بھائیوں نے پچھلے چار سالوں میں اپنا ایک ایک گردہ بیچ دیا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ساڑھے چار سیکنڈ


نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…