ہفتہ‬‮ ، 01 فروری‬‮ 2025 

عمران خان کیخلاف عدم اعتماد اپوزیشن کے اہم رکن نے پلان بتادیا

datetime 15  فروری‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اپوزیشن کا فیصلہ بے وجہ نہیں ہے کیونکہ اہم اپوزیشن رہنمائوں کو بڑی امیدیں ہیں کہ معاملات ’’منصوبے‘‘ کے مطابق ہی طے پائیں گے، یہ اس منصوبے کو خفیہ رکھا جارہا ہے اور صرف چند لوگوں کو ہی اس کا علم ہے۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق ایک باخبر ذریعے نے بتایا ہے کہ توقع

ہے کہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے 20؍ سے 30؍ الیکٹیبلز اپوزیشن کا ساتھ دیں گے جبکہ حکومتی اتحادیوں بشمول ق لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ جاری رابطے منصوبے کا حصہ ہیں۔ذریعے نے کہا کہ آئندہ دنوں میں اپوزیشن کی کوئی اہم شخصیت اگر جہانگیر ترین سے ملاقات کرے تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہئے۔ بظاہر اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں کے درمیان رابطوں کا کوئی ثمر نہیں ملا لیکن ذریعے کا اصرار ہے کہ اپوزیشن کے پُرامید رہنما، جن میں شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری شامل ہیں، سمجھتے ہیں کہ ق لیگ اور ایم کیو ایم ضرورت پڑنے پر اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ذریعے نے کہا کہ اپوزیشن میں ’’پر امید شخصیات‘‘ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف آئندہ چند ہفتوں میں عدم اعتماد کی تحریک آجائے گی۔اس نمائندے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنے والا ذریعہ اُن افراد میں شامل ہے جنہیں ’’منصوبے‘‘ کا علم ہے لیکن انہیں یقین نہیں کہ اہم اپوزیشن رہنمائوں کو دی جانے والی امیدوں میں دم ہے یا نہیں، اور یہ بھی کہ کہیں یہ امیدیں کسی بڑے کھیل کا حصہ تو نہیں۔

ذریعے کے مطابق، چند اپوزیشن رہنمائوں کو اس قدر یقین ہے کہ حالات اُن کی امیدوں کے مطابق سامنے آئیں گے، حتیٰ کہ اُن میں سے ایک نے عمران خان کے متبادل کا نام بھی پیش کردیا۔ پر امید شخصیات ق لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والی اپنی حالیہ بات چیت سے مایوس ہیں اور نہ ہی ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ان کی امید انہیں یقین دلاتی ہے کہ پی ٹی آئی کے اتحادی

درست وقت پر اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ ایک مرتبہ پھر صورتحال بڑی مشکل نظر آتی ہے لیکن پر امید شخصیات کو توقع ہے کہ پی ٹی آئی کے الیکٹیبلز اُن کا ساتھ دیں گے اور وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک رواں ماہ کے آخر تک پیش کر دی جائے گی۔حال ہی میں آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان زیادہ سرگرم ہوگئے اور ایک دوسرے کے ساتھ اور ساتھ ہی پی ٹی

آئی کے اتحادیوں کے ساتھ ملاقات بھی کی۔ جس بات نے سب کو حیران کیا وہ پی ڈی ایم کا وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ تھی وہ بھی اُس وقت جب اپوزیشن کے پاس ارکان کی مطلوبہ تعداد نہیں تھی۔کہا جاتا ہے کہ آئندہ چند ہفتے بہت اہم ہیں۔ صورتحال منصوبے کے مطابق تبدیل نہ ہوئی تو امکان ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کو نکال باہر کرنے کا اپوزیشن کا جوش و جذبہ مارچ کی آمد کے ساتھ ماند پڑ سکتا ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے 30؍ الیکٹیبلز اپوزیشن کی امیدوں پر پوُرا اترے تو یہ لوگ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



دجال آ چکا ہے


نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…