اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، کالم نگار اور اینکر پرسن جاوید چوہدری اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔وزیراعظم کو شہزاد اکبر پر چھ اعتراضات تھے‘ پہلا اعتراض‘ یہ پاور پوائنٹس میں پریذنٹیشن بہت اچھی دیتے تھے لیکن جب دستاویزی ثبوتوں کی باری آتی تھی تو یہ کاغذات کا پلندہ پیش کر دیتے تھے اور یہ پلندہ آگے چل کر کاغذی
ثابت ہوتا تھا‘ شہزاد اکبر نے میاں شہباز شریف فیملی پر 27 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام لگایا‘ وزیراعظم کو بڑی زبردست بریفنگ دی لیکن جب ریفرنس بنا تو پہلے 27 ارب روپے16 ارب روپے ہوئے‘پھر گواہوں کی فہرست میں سو لوگ آ گئے اور پھر معاملہ جب عدالت میں پہنچا تو شہزاد اکبر کے ثبوت مخالف وکیلوں کے چند سوالوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور یوں حمزہ شہباز شریف کی ضمانت بھی ہو گئی اور میاں شہباز شریف بھی گھر واپس آ گئے‘ شہزاد اکبر نے دسمبر2019ء میں لندن میں شہباز شریف فیملی کے خلاف این سی اے(نیشنل کرائم ایجنسی) میں کیس کیا‘ یہ کیس 21 ماہ چلتا رہا لیکن حکومت الزامات ثابت کر سکی اور نہ ثبوت دے سکی لہٰذا این سی اے نے ستمبر 2021ء میں اس الزام کو بے بنیاد قرار دے دیا اور حکومت ٹھیک ٹھاک بدنام ہو گئی اور میاں شہباز شریف اب اگلے وزیراعظم بن کر ابھر رہے ہیں‘ اپوزیشن‘ اتحادی اور پی ٹی آئی کے اپنے 22 ارکان انہیں اعتماد کی یقین دہانی کرا رہے ہیں جب کہ عمران خان
انہیں ہر صورت نااہل قرار دلانا چاہتے ہیں اور شہزاد اکبر یہ بھاری پتھر نہیں اٹھا پا رہے تھے لہٰذا انہیں فارغ کر دیا گیا‘ دوسرا اعتراض‘ شہزاد اکبر نے وزیراعظم کو یقین دلایا تھا ’’میں نے پاکستان کو لوٹنے والی سو بڑی مچھلیوں کا ڈیٹا بھی جمع کر لیا ہے اور ان کے خلاف تگڑے کیس بھی بن رہے ہیں‘یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اور مضبوط
کیس ہوں گے‘ یہ وزیراعظم کو یہ یقین بھی دلاتے رہے سوئس بینکوں میں پاکستانی لٹیروں کے 280 بلین ڈالرز پڑے ہیں‘ ہم اگر یہ رقم لے آئے تو ہمیں آئی ایم ایف کے سامنے گڑگڑانا پڑے گا اور نہ ہی کشکول اٹھانا پڑے گا‘ وزیراعظم خوش ہو گئے لیکن جب ثبوتوں کی باری آئی تو یہ چند شیٹس اور دو ہزار الفاظ کے سوا کچھ نہیں تھا‘فائلوں میں دعوں اور
خواہشات کے لنگڑے گھوڑوں کے سوا کچھ نہیں تھا‘ تیسرا اعتراض‘ وزیراعظم انہیں جب بھی سپیڈ بڑھانے کا کہتے تھے یہ گھنٹی اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب اور ایف آئی اے کے گلے میں باندھ دیتے تھے‘ وزیراعظم نے ان کے مشورے پر گوہر نفیس کو ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب بھی لگا دیا‘ ایف آئی اے کو بھی ان کے سامنے جواب دہ بنا دیا اور انہیں باقی تمام
سہولیات بھی دے دیں لیکن گوہر نفیس کے خلاف بھی شکایات کا انبار لگ گیا‘ ایف آئی اے کے ثبوت عدالتوں میں اڑ گئے اور کرپشن کے نئے نئے سیکنڈل بھی سامنے آنے لگے‘ چوتھا اعتراض‘ شہزاد اکبر اور پرنسپل سیکرٹری اعظم خان دونوں نے مل کر وزیراعظم کے تمام دوستوں کو ناراض کر دیا‘ جہانگیر ترین ہوں‘ ذلفی بخاری ہوں‘ ندیم بابر ہوں‘
انیل مسرت ہوں یا پھر پرویز خٹک ہوں وزیراعظم کے تمام دوستوں کے ہونٹوں پر صرف دو نام تھے‘ شہزاد اکبر اور اعظم خان لہٰذا وزیراعظم جب آج اپنے دائیں بائیں دیکھتے ہیں تو انہیں کوئی اپنا دکھائی نہیں دیتا‘ یہ خود کو اکیلا محسوس کرتے ہیں اور یہ شہزاد اکبر کو اس اکیلے پن کا ذمہ دار سمجھتے ہیں‘ پانچواں اعتراض‘ شہزاد اکبر نے وزیراعظم
سے وعدہ کیا تھا میں میاں نواز شریف کو لندن سے ہتھکڑی میں واپس لائوں گا لیکن نواز شریف کی باعزتواپسی کا وقت آ گیا مگر شہزاد اکبر اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے اور چھٹا اور آخری اعتراض‘ وزیراعظم کا خیال ہے شہزاد اکبر مشیر میرے ہیں لیکن یہ احکامات کسی اور سے لیتے ہیں‘ انہیں دوسری طرف سے جب بھی حکم دیا جاتا ہے یہ اس کے مطابق کارروائی تیز اور آہستہ کر تے رہتے ہیں‘ بدنام میں ہو رہا ہوں لیکن ڈیل کوئی اور کر رہا ہے لہٰذا شہزاد اکبر کو گھر بھجوا دیا گیا۔