کراچی (اے ایف پی) پاکستان کی اقتصادی مشکلات نے وزیراعظم عمران خان کے سیاسی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے عام آدمی کے ذرائع روزگار بے یقینی کا شکار ہیں۔ ایک عوامی جائزے کے مطابق مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ ایک گھریلو خاتون مائرہ طیب کا کہنا ہے کہ ذرائع آمدن مسدود ہوجانے کی وجہ سے وہ بال بچوں کو پالنے کے لئے پریشان ہیں، ہم لوگ سفید پوش ہونے کی وجہ
سے بھیک بھی نہیں مانگ سکتے ۔ کاروبار بیٹھ جانے کی وجہ سے دکاندار محمد حنیف نے جرائم میں ملوث ہونے کا سوچنا شروع کردیا ہے یہی سوچ کروڑوں پاکستانیوں کی ہے، وہ وزیراعظم عمران خان کی ناقص کارکردگی، بیروزگاری اور مہنگائی سے مایوس ہیں جس کیو جہ سے تحریک انصاف حکومت کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ 40؍ سالہ مائرہ طیب نے کہا کہ وہ سفید پوش متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں ، پاکستان کے مالیاتی مرکز کراچی سے ان کا تعلق ہے لیکن متوسط طبقے کے لاکھوں خاندانوں کے لئے ضروریات زندگی سے عہدہ برا ہونا مشکل ہوگیا ہے ،عمران خان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے خوردنی تیل کے نرخ میں 130؍ فیصد اضافہ ہوگیا ایندھن (تیل)کی قیمت 148؍ روپے فی لیٹر تک جا پہنچی ہے۔ 5؍ بچوں کی ماں 50؍ سالہ خورشید شریف نے خاندان کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے حکومت کو خوب کوسا، ان کا کہنا تھا کہ اب تو موت ہی زندگی کا واحد حل دکھائی دیتی ہے، کرایہ کے خستہ حال مکان میں رہائش نے بھی ان کی مالی اور ذہنی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔
تحریک انصاف حکومت کی ناقص کارکردگی کے اثرات صاف نظر آنے لگے ہیں۔ خیبرپختونخوا جہاں تحریک انصاف کو کامیابی نصیب ہوئی تھی حالیہ صوبائی انتخابات میں اسے شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ آئندہ مارچ میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں بھی تحریک انصاف کی کامیابی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ ایک سیاسی تجزیہ کار توصیف احمد خان کے مطابق عمر
ان خان نے بڑے انتخابی وعدے کئے لیکن کورونا وائرس سے اقتصادی مندی کے باعث وہ اپنے بند بانگ دعوے پورے کرنے میں ناکام رہے ان کے دور میں پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں جکڑا ملک بن گیا۔ بینکار راشد عالم کے مطباق ملک عدم استحکام کا شکار ہے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہی ہوا رواں مالی سال اقتصای شرح نمو کا
ممکنہ تناسب 4؍ فیصد بتایا جارہا ہے، ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں 12؍ فیصد کمی واقع ہوئی، زرمبادلہ ذخائر میں 10؍ فیصد کے تناسب سے 12؍ ارب 90؍ کروڑ ڈالر اضافے کے باوجود مہنگائی سمیت اقتصادی مسائل پر گرفت نہیں کی جاسکی ہے۔ پاکستان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ 127؍ ارب ڈالرز کا قرضہ ہے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والا 6؍ ارب ڈالرز کا قرضہ بھی شرائط میں جکڑا ہوا ہے جس سے
ملک کی مالی اور اقتصادی خودمختاری گروی کردی گئی ہے۔ پاکستان قرضے واپس لوٹانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اقتصادیات دیوالیہ ہوگئی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے 5؍ ارب ڈالرز قرض لے کر پچھلی ادائیگیاں کی جارہی ہیں پاکستان میں ٹیکس چوری عام ہے۔ 2020ء میں ٹیکس ادا کرنے کے قابل آبادی 25؍ گنا زیادہ ہونے کے باوجود صرف 20؍ لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں جس سے حاصل آمدنی جی ڈی پی کا صرف 10؍ فیصد ہے۔ یہ خطے میں نچلی ترین سطح ہے۔ اپنے مالی مسائل اور پریشانیاں دور کرنے کے لئے سفید پوش افراد میں بھی جرائم کی طرف رجحان جڑ پکڑنے لگا ہے۔