بیونس آئرس(این این آئی )2013میں ایچ آئی وی کا شکار ہونے والی ایک 30 سالہ خاتون دنیا کی دوسری شخصیت بن گئی ہیں جوایڈز کو بغیر ادویات یا بون میرو ٹرانسپلانٹ کے شکست دینے میں کامیاب ہوگئیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس سے قبل امریکا کے شہر سان فرانسسکو سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنے حیران کن مدافعتی نظام کے ذریعے ایچ آئی وی
کو جسم سے ختم کرنے والی پہلی شخصیت بنی تھیں۔اب 30 سالہ خاتون ایسا کرنے میں کامیاب ہوئی جن میں 2013 میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی اور اینٹی ریٹرووائرل تھراپی کو 2019 میں حاملہ ہونے پر اپنایا۔مگر اس کے بعد علاج سے دور ہوگئیں اور میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کے ماہرین نے ایچ آئی وی کے خاتمے کو دریافت کیا۔یہ انکشاف اس وقت سامنے آیاجب انہوں نے مریض کے ایک ارب 20 کروڑ خون کے خلیات اور 50 کروڑ ٹشوز سیلز کے سیکونس تیار کیے۔انہوں نے دریافت کیا کہ اس خاتون کے نمونوں میں ایچ آئی وی جینوم موجود نہیں، یہاں تک کہ 15 کروڑ سی ڈی 4 پلس ٹی سیلز میں بھی وہ وائرس دریافت نہیں ہوا جو عموما اس وائرس کی بنیادی پناہ گاہ ہے۔انہیں بس ایک ہائپر میوٹیڈ وائرل سیکونس ملا جس سے ثابت ہوا کہ 2013 میں ایچ آئی وی کی تشخیص کوئی غلطی نہیں تھی۔محققین نے بتایا کہ وائرس کا خاتمہ کسی کرشمے سے کم نہیں، ان نتائج سے اس طرح کے دوسرے کیس کی شناخت ہوئی ہے، جس
سے عندیہ ملتا ہے کہ اس طرح کے علاج کا ذریعہ ایسے مریضوں کے لیے ممکنہ طور پر دستیاب ہوتا ہے جو خود اپنے طور پر ایسا کرنے کے قابل نہیں۔2020 میں برازیل سے تعلق رکھنے والے ایک شخص دنیا کا وہ پہلا فرد قرار پایا تھا جو صرف تجرباتی ادویات کے طریقہ علاج سے ایچ آئی وی سے شفایاب ہوجائے گا۔اس 34 سالہ شخص میں 2012 میں
ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی اور اسے ایک سال تک اے وی آر ادویات کا استعمال کرایا گیا اور اب وہ پہلا فرد بننے والا ہے جو ناقابل علاج سمجھے جانے والی بیماری کو شکست دینے کے قریب ہے۔اس شخص کے ساتھ 4 دیگر افراد کو بھی تجرباتی طریقہ علاج کا حصہ بنایا گیا تھا مگر صرف وہی شفا پانے میں کامیاب ہوا۔محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تجزیے کی ضرورت ہے۔