اسلام آباد ( آن لائن)سپریم کورٹ نے حکومت کو سانحہ اے پی ایس متاثرین کے ساتھ ملکراقدامات اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے دو ہفتوں کے اندررپورٹ وزیر اعظم کے دستخط کے ساتھ جمع کروانے کی ہدایت کی ہے ۔عدالت عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا قبول منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت 4 ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی ۔تفصیلات کے مطابق وزیرا عظم
عمران خان سانحہ اے پی کیس میں سپریم کورٹ پیش ہوئے اور ججز کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیئے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے عمران خان کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ سانحہ اے پی ایس میں ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لئے کیا کیا؟ جس پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو 128 دن کا دھرنا ختم کر کے فوری پشاور پہنچا، میں تو اْس وقت حکومت میں نہیں تھا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت کو چھوڑیں اب تو آپ اقتدار میں ہیں، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کیلئے آپ نے کیا اقدامات کئے ،میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ توان لوگوں سے مذاکرات کررہے ہیں۔اس پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ آپ مجھے بات کرنے کا موقع دیں،میں ایک ایک کرکے وضاحت کرتا ہوں،اخلاقی ذمہ داری پر کیسے کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کر دیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں،ہم یہ پوچھ رہے ہیں اتنے سال
گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا، آپ بتائیں ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟آئین پاکستان میں عوام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔اس پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 80 ہزار لوگ
شہید ہوئے،میں نے اس وقت کہا تھا یہ امریکاکی جنگ ہے، ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئے، ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ دوست کون ہے اور کون دشمن،ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ اس لیے جیتے ہیں کہ قوم پیچھے کھڑی تھی، میں نے کہا تھا ہمیں نیوٹرل رہنا چاہئے۔جب سانحہ ہوا تو کے پی میں ہماری حکومت تھی ، سانحہ اے پی ایس بہت دردناک تھا، سانحہ
کی رات ہم نے اپنی پارٹی کا اجلاس بلایا تھا۔اس دوران جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں،آپ نے کیا کہا تھا اور کیا سوچا تھا اس سے غرض نہیں،یہ بتائیں اب تک کس کوپکڑا گیا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کوئی بھی خصوصی اقدام نہیں لیے گئے،انٹیلی جنس کا فقدان نہیں آتا ہے،حکومت نے کوئی
اہم اقدام اٹھائے ہیں تو عدالت کو بتایا جائے،آئین پاکستان ہر پاکستانی کے جان و مال کا تحفظ دیتا ہے۔قبل ازیں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سانحہ آرمی پبلک سکول کیس کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟اٹارنی جنرل نے بتایا وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا،
وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے ، ایسے نہیں چلے گا۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سب سے نازک اورآسان ہدف سکول کے بچے تھے، ممکن نہیں دہشت گردوں کواندر سے سپورٹ نہ ملی ہو جبکہ چیف جسٹس
کا کہنا تھا کہ بچوں کو ایسے مرنے نہیں دے سکتے۔دوران سماعت عدالت میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ ہوا، جسٹس قاضی امین نے کہا اطلاعات ہیں ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی، اصل میں
توکارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی، اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لیکر چلتے بنے، جس پر وکیل والدین امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ حکومت ٹی ایل پی سے مذاکرات کر رہی ہے، قصاص کا حق والدین کاہے ریاست کانہیں، ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔بعد ازاں سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس میں وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ کی طلبی پر عدالت میں پیش ہوئے۔