کراچی(این این آئی) لازمی بائیو میٹرک سرٹیفکیشن متعارف کرانے کے بعد اوپن مارکیٹ سے یومیہ ڈالر کی خریداری 70 سے 80 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 20 سے 30 لاکھ ڈالر تک رہ گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے 500 ڈالر یا اس سے زائد کی غیر ملکی کرنسیوں کی خریداری پر بائیو میٹرک سرٹیفکیشن کو لازمی قرار دیا تھا اور اس
کیلئے 22 اکتوبر کی آخری تاریخ مقرر کی تھی تاہم ایکسچینج کمپنیاں تکنیکی وجوہات کی بنا پر اس شرط پر عمل درآمد نہیں کر سکیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق حقیقی خریداروں کی سہولت کیلئے اسٹیٹ بینک نے عارضی طور پر 5 نومبر تک ایکسچینج کمپنیوں کو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی ای سہولت فرنچائزز سے بائیو میٹرک سرٹیفکیشن پیش کرنے پر 500 ڈالر سے زیادہ فروخت کرنے کی اجازت دے دی۔ای سہولت آؤٹ لیٹس بائیو میٹرک سرٹیفکیٹ فراہم کرتے ہیں جو کسی فرد کو ڈالر فروخت کرنے سے پہلے ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے نادرا کی ویب سائٹ سے دوبارہ چیک کیا جاتا ہے۔ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا کہ بائیو میٹرک کی شرط نے تجارت کے حجم میں تیزی سے کمی کی ہے، نہ تو خریدار دستیاب ہیں اور نہ ہی فروخت کرنے والے اپنی کرنسی فروخت کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اوپن مارکیٹ میں فروخت ہونے والی دیگر غیر ملکی کرنسیوں کو پاکستان میں ڈالر کی مساوی مقدار لانے کے لیے دبئی لے جایا گیا تھا۔افغانستان میں ڈالر
کی اسمگلنگ نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو اس عمل کی جانچ پڑتال کے لیے ہدایات جاری کرے تاہم ایف آئی اے کی مداخلت سے مارکیٹ میں خوف پیدا ہوگیا کیونکہ ایجنسی نے خریداروں اور فروخت کرنے والوں سے پوچھ گچھ شروع کردی۔کرنسی ڈیلرز کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی شمولیت سے افغانستان میں اسمگلنگ میں کمی ضرور آئی
ہے لیکن خدشہ ہے کہ کرنسی کی تجارت غیر قانونی منڈیوں کی طرف منتقل ہو سکتی ہے۔رواں ہفتے کے اختتام کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں گزشتہ تین دنوں کے دوران ڈالر کی قدر میں 3.60 روپے کی کمی ہوئی۔کرنسی ماہرین کا کہنا تھا کہ حکومت کے سعودی عرب سے فوری مدد کے اعلان کے بعد کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی۔سعودی فنڈ نے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی تیل کی مؤخر
ادائیگی کی سہولت کے علاوہ 3 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کا اعلان کیا۔انٹربینک مارکیٹ میں کرنسی ڈیلر عاطف احمد کا کہنا تھا کہ ہمیں بہتری کی اْمید ہے لیکن یہ پائیدار نہیں ہے کیونکہ سعودی عرب سے ڈالر کی آمد کا ملک سے بڑھتے ہوئے اخراج سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ستمبر کے لیے درآمدی بل اگست کی طرح 6 ارب 50 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ رہا جو تجارتی خسارے کے مسلسل بڑھنے کا اشارہ دے رہا ہے جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بھی بڑھ رہا ہے۔