نئی دہلی(این این آئی) جب بھوک اور غذائی قلت کی بات ہوتو بھارت میں اس کی شرح بڑھتے بڑھتے یہاں تک جاپہنچی ہے کہ وہاں بھوک کا مسئلہ نیپال، پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی گھمبیر اور بدتر ہوگیا ہے۔اس ضمن میں ہر سال گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی)کی رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس میں تمام ممالک میں بھوک اور غذائی قلت کا جائزہ لے کر اس
کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ 116 ممالک میں بھارت کا نمبر 101 ہے جو آخری بدترین ملک سے صرف 15 درجے ہی اوپر ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق جی ایچ آئی اسکور میں سب سے بلند چین، برازیل، کویت سمیت دیگر اٹھارہ ممالک شامل ہیں جن کا نمبر پانچواں ہے۔ یہ رپورٹ آئرلینڈ اور جرمنی کے اداروں نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے جس میں بھارت میں بھوک کی شرح کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا گیا ہے۔2020 میں 107 ممالک میں بھارت کا نمبر 94 تھا اور اب 116 ملکوں کی فہرست میں گرکر 101 پر جاپہنچا ہے۔ اسی طرح جی ایچ اسکور کی شرح بھی کم ہوئی ہے جو سال 2000 میں 38.8 تھی اور 2012 اور 2021 میں بالترتیب 28.8 اور 27.5 ہوچکی ہے۔اس مطالعے میں چار اہم عوامل کو دیکھا جاتا ہے جن میں ناکافی غذا، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں بونا پن اور غذائی قلت، چھوٹا قدم اور پانچ سال کی عمر تک پہنچتے ہوئے بچوں میں اموات کی شرح کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ بھارت میں یہ شرح بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔
اب اس فہرست میں 116 ممالک میں پاکستان کا نمبر 92، نیپال کا نمبر 76، بنگلہ دیش بھی 76 اور میانمار 71 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ممالک اپنے شہریوں کی بھوک مٹانے اور فاقہ دورکرنے میں بھارت سے کہیں آگے اور بہتر ہیں۔ تاہم پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح پر بھارت نے قابو پانے کی کوشش کی ہے اور اسے کچھ کامیابیاں بھی ملی ہیں۔