اسلام آباد (آن لائن)وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت تھی وقت کے ساتھ ہم نے معیشت کی سمت کھو دی۔ہم نے ملکی معیشت کے ساتھ انصاف نہیں کیا،وزیر اعظم عمران خان کو ابتر حالت میں معیشت ورثے میں ملی ہمارے قرضے غیر مستحکم سطح پر پہنچ گئے تھے۔ہمیں معیشت کی سمت کو درست کرنے کیلئے مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنا پڑے
وزیر خزانہ شوکت ترین کا واشنگٹن میں امریکی ادارہ برائے امن (USIP) میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔کرنسی کی قدر میں گراوٹ کرنا پڑی کورونا کی وبا نے عالمی معیشت کو بھی متاثر کیا۔حکومت نے موثر انداز میں کورونا وباء کا مقابلہ کیامعاشی شرح نمو کو منفی صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے چار اعشاریہ پانچ فیصد پر لے کرگئیہمارے ساٹھ فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر ہے۔ان کیلئے روزگار کا بندوبست کرنا ہے شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ہم نے زراعت، صنعت، درآمدات اور ہاوسنگ میں اصلاحات کی ہیں ہم اس سال پانچ فیصد کی شرح سے ترقی کریں گے۔مستحق طبقے کو ترقی کے ثمرات پہنچائیں گے ۔ پاکستان گوادر میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتاہے ہم پائیدار بنیادوں پر ترقی کے حصول کیلئے کوشاں ہیں ہم زراعت، گھرانوں کی تعمیر کیلئے سستے قرضے دے رہے ہیں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کمزورطبقے کو صحت کارڈ جاری کررہے ہیں کامیاب پاکستان پروگرام کے ذریعے چالیس لاکھ گھرانوں کو سستے قرضے دئے جائیں گے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کی چھٹی قسط میرے دورے کا سب سے اہم جزوہے آئی ایم ایف سے ٹیکنیکل لیول مذاکرات مکمل کرلئے ہیں پاکستان کو ہمیشہ سے سکیورٹی کے پرزم سے دیکھا گیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں لوگوں کو اقتصادی فلاح کے پرزم سے دیکھنا ہے
وزیراعظم عمران خان نے ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں ہمسایہ ملکوں کے زیادہ دورے کئے۔ہمارے ہمسایہ ملکوں سے تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ہم اقوام متحدہ کی قرار دوں کے تحت سمجھتے ہیں کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے شوکت ترین کا کہنا تھا کہ
طالبان کے پاس کیش کی قلت ہے۔اگر بین الاقوامی برادری نے مددنہ کی تو افغانستان میں بحران پیدا ہوسکتا ہے۔اس سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگا بین الاقوامی برادری کو افغانستان کی مدد کرنی چاہیے ہم معیشت میں میرٹ کی بالادستی لارہے ہیں۔وزارتوں میں نجی شعبے سے ماہرین لارہے ہیں بیوروکریسی کی کارکردگی کو بڑھارہے ہیں۔ٹیکس اصلاحات کی جارہی ہیں ۔