لندن (این این آئی)برطانیہ نے بھارت کو کورونا ریڈ لسٹ سے نکالنے کا اعلان کردیا۔ میڈیارپورٹس کے مطابق بحرین، قطر، یو اے ای بھی ریڈ سے امبر لسٹ میں شامل جبکہ پاکستان بدستور ریڈ لسٹ میں شامل ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق پاکستان سے برطانیہ آنے والوں کو ہوٹل میں قرنطینہ کرنا ہوگا۔ ریڈ لسٹ میں شامل ممالک سے آنے والوں سے قرنطینہ کی مد میں زائد رقم وصول کی جائے گی۔
ایک بالغ شخص کے قرنطینہ کے اخراجات 1,750 سے بڑھ کر 2,285 پاونڈ ہوجائیں گے جبکہ دوسرے بالغ شخص کے لیے 1,430 پاونڈ ادا کرنا ہوں گے۔دوسری جانب جو بچے کورونا وائرس سے متاثر ہوتے ہیں ان میں طویل المعیاد بنیادوں پر علامات کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور حالیہ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا کہ اس سے متاثر بالغ افراد کی شرح کافی زیادہ ہوسکتی ہے۔مگر کنگز کالج لندن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں میں لانگ کووڈ کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔اس تحقیق میں 5 سے 17 سال کی عمر کے 1734 بچوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں ستمبر 2020 سے فروری 2021 کے دوران کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔محققین نے بتایا کہ یہ
جاننا بہت مشکل ہے کہ اس عرصے میں کتنے بچے کووڈ 19 سے متاثر ہوئے کیونکہ برطانیہ کے 4 ممالک میں ڈیٹا کو جمع کرنے کا طریقہ کار مختلف ہے، مگر ایک تخمینے کے مطابق 4 لاکھ سے زیادہ بچے اور نوجوانوں میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔تحقیق کے مطابق ہر 20 میں سے ایک چار فیصدکو چارہفتوں یا اس سے زائد عرصے تک علامات کا سامنا ہوا جبکہ ہر 50 میں سے صرف ایک یادوفیصدمیں
علامات کا دورانیہ 8 ہفتوں سے زیادہ تھا۔جن بچوں کو لانگ کووڈ کا سامنا ہوا ان کی جانب سے سردرد اور تھکاوٹ کو عام ترین علامات کے طور پر رپورٹ کیا گیا جبکہ کچھ کو گلے کی سوجن اور سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوا۔تحقیق میں بتایا کہ اوسطا زیادہ عمر کے بچوں میں بیماری کا دورانیہ پرائمری اسکول جانے والے بچوں کے مقابلے میں کچھ طویل ہوتا ہے۔12 سے 17
سال کی عمر کے بچے ایک ہفتے میں بیماری سے صحتیاب ہو جاتے ہیں جبکہ اس سے کم عمر بچوں میں بیماری کا دورانیہ 5 دن تک ہوتا ہے۔محققین نے بتایا کہ نتائج کا پیغام یہ ہے کہ بچے بھی کووڈ کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد علامات کا سامنا کرسکتے ہیں، مگر یہ زیادہ عام نہیں ہوتا اور بیشتر بچے وقت کے ساتھ بہتر ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بچوں میں دیگر بیماریوں سے بھی طویل المعیاد علامات کا امکان ہوتا ہے، تو ہمیں یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ بچوں میں یہ علامات کووڈ 19 کی ہیں یا کسی اور بیماری کی۔